Sunday, January 5, 2014

Koi Nazam Aisi Likhon Kabhi

کوئی نظم ایسی لکھوں کبھی

تری بات بات کی روشنی
مرے حرف حرف میں بکھر سکے
ترے لمس کی یہ شگفتگی
مرے جسم و جاں میں اتر سکے
کوئی چاندنی کسی گہرے رنگ کے راز کی
مرے راستوں میں بکھر سکے

تری گفتگو سے بناؤں میں
کوئی داستاں کوئی کہکشاں
ہوں محبتوں کی تمازتیں بھی کمال طرح سے مہرباں
ترے بازوؤں کی بہار میں
کبھی جھولتے ہوئے گاؤں میں
تری جستجو کے چراغ کو سر شام دل میں جلاؤں
اسی جھلملاتی سی شام میں
لکھوں نظم جو ترا روپ ہو

کہیں سخت جاڑوں میں ایک دم جو چمک اٹھے
کوئی خوشگوار سی دھوپ ہو
جو وفا کی تال کے رقص کا
کوئی جاگتا سا عکس ہو
کوئی نظم ایسی لکھوں کبھی

کہ ہر ایک لفظ کے ہاتھ میں
ترے نام کے
ترے حرف تازہ کلام کے
کی راز ہوں
جنہیں منکشف بھی کروں اگر
تو جہان شعر کے باب میں
مرے دل میں رکھی کتاب میں
ترے چشم و لب بھی چمک اٹھیں
مجھے روشنی کی فضاؤں میں کہیں گھیر لیں

کوئی نظم ایسی لکھوں کبھی ...... !!