Saturday, November 30, 2013

Ab samundar hey koi aur na darya mera

اب سمندر ھے کوئی، اور نہ دریا میرا
راستہ دیکھ رھا ھے کہیں صحرا میرا

منزلِ خواب ھے یا کوئی قیامت کی گھڑی
اُس کی آنکھوں نے پہن رکھا ھے چہرہ میرا

دِل کی باتیں سرِ بازار لئے پِھرتی ھیں
پڑھ لیا جب سے ھواؤں نے ھے قصہ میرا

اُس کی یادوں سے کہو ھاتھ پکڑ لیں آ کر
گُم ھُوا جاتا ھے تاریکی میں سایہ میرا

 
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

شاھین مُفتی
مجموعہ کلام "پانی پہ قدم"
 

Friday, November 29, 2013

kuch ishq kia kuch kaam kia

کچھ عشق کیا ، کچھ کام کیا

وہ لوگ بہت خوش قسمت تھے
جو عشق کو کام سمجھتے تھے
یا کام سے عاشقی کرتے تھے
ہم جیتے جی مصروف رہے
کچھ عشق کیا ، کچھ کام کیا
کام عشق کے آڑے آتا رہا
اور عشق سے کام الجھتا رہا
پھر آخر تنگ آکر ہم نے

دونوں کو ادھورا چھوڑ دیا ...

Monday, November 18, 2013

سُنو - ناراض ہو ہم سے


سُنو

ناراض ہو ہم سے ؟
مگر ہم وہ ہیں جن کو تو منانا بھی نہیں آتا
کسی نے آج تک ہم سے محبت جو نہیں کی ہے

محبّت کس طرح ہوتی ؟
ہمارے شہر کے اطراف میں تو
سخت پہرہ تھا خزاؤں کا
اور اس شہرِ پریشاں کی فصیلیں
زرد بیلوں سے لدی تھیں
اور اُن میں نہ کوئی خوشبو تھی، نہ کوئی پھول تم جیسا
مہک اُٹھتے ہمارے دیدہ و دل جس کی قُربت سے

ہم ایسے شہر کی سنسان گلیوں میں
کسی سُوکھے ہوئے ویران پتّے کی طرح سے تھے
کہ جب ظالم ہوا ہم پر قدم رکھتی
تو اُس کے پاؤں کے نیچے ہمارا دم نکل جاتا

مگر پت جھڑ کا وہ ویران موسم
سُنا ہےٹل چکا اب تو

مگر 
جو ہار ہونا تھی
سو وہ تو ہو چکی ہم کو

سُنو۔۔۔۔۔
ہارے ہوئے لوگوں سے تو روٹھا نہیں کرتے

Saturday, November 16, 2013

کبھی حیات کی ضامن

کبھی حیات کی ضامن، کبھی وسیلہ مرگ
نگاہِ یار............... ترا کویَ اعتبار نہیں.

-♥-

Friday, November 15, 2013

سنو تم جان ہو میری

سنو ... تم جان ہو میری
سنو ... بے جان کرگئے ہو مجھے
سنو ... تم شان ہو میری
سنو ... بے نشان کر گئے ہو مجھے


احمر -♥-

Thursday, November 14, 2013

سنو ذرا کم کم روٹھا کرو

سنو جاناں !
 
ذرا کم کم روٹھا کرو، کہ زندگی اتنی طویل نہیں ،
بے اعتبار سی مہلت ہے، جانے کب ختم ہو جائے .

 

احمر -♥-

Wednesday, November 13, 2013

Is dil k chand aasason main

اس دل کے چند اثاثوں میں
اک موسم ھے برساتوں کا
اک صحرا ہجر کی راتوں کا،
اک جنگل وصل کے خوابوں کا

اس چودھویں رات کے سائے میں
جب آخری بار ملے تھے ھم
یہ دل پاگل کب بھولتا ھے
وہ باغ سفید گلابوں کا

مرے خیمہ دل کے پاس کہیں
اک جگنو ٹھہر گیا اور پھر
سیلاب تھا ساری بستی میں
اندازوں کا، آوازوں کا

ہم لوگ جنوں کے عالم میں
منزل کی طلب بھی بھول گے
اب دل کو بھلا سا لگتا ہے،
صحرا میں عکس سرابوں کا