حال کُھلتا نہیں جبینوں سے
رنج اُٹھائے ہیں کن قرینوں سے
رنج اُٹھائے ہیں کن قرینوں سے
رات آہستہ گام اُتری ہے
درد کے ماہتاب زینوں سے
درد کے ماہتاب زینوں سے
ہم نے سوچا نہ اُس نے جانا ہے
دل بھی ہوتے ہیں آبگینوں سے
دل بھی ہوتے ہیں آبگینوں سے
کون لے گا شرارِ جاں کا حساب
دشتِ امروز کے دفینوں سے
دشتِ امروز کے دفینوں سے
تو نے مژگاں اُٹھا کے دیکھا بھی
شہر خالی نہ تھا مکینوں سے
شہر خالی نہ تھا مکینوں سے
آشنا آشنا پیام آئے
اجنبی اجنبی زمینوں سے
اجنبی اجنبی زمینوں سے
جی کو آرام آ گیا ہے اداؔ
کبھی طوفاں، کبھی سفینوں سے
کبھی طوفاں، کبھی سفینوں سے