Tuesday, January 21, 2014

دل اداس ہے بہت کوئی پیغام ہی لکھ دو

دل اداس ہے بہت کوئی پیغام ہی لکھ دو
تم اپنا نام نہ لکھو ، گمنام ہی لکھ دو

میری قسمت میں غم تنہائی ہے لیکن
تمام عمر نہ لکھو مگر اک شام ہی لکھ دو

ضروری نہیں کہ مل جائے سکون ہر کسی کو
سر بزم نہ آؤ مگر بے نام ہی لکھ دو

یہ جانتا ہوں کہ عمر بھر بن تیرے مجھکو رہنا ہے
مگر پل دو پل، گھڑی دو گھڑی، میرے نام ہی لکھ دو

چلو ہم مان لیتے ہیں کہ سزا کے مستحق ٹہرے ہم
کوئی انعام نہ لکھو کوئی الزام ہی لکھ دو

Saturday, January 18, 2014

سنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
تو اس کے شہر میں‌کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے درد کی گاہک ہے چشمِ ناز اس کی
سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
تو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے حشر ہیں‌اس کی غزال سی آنکھیں
سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں‌کاکلیں اس کی
سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کی سیہ چشمگی قیامت ہے
سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے جب سے حمائل ہیں اس کی گردن میں
مزاج اور ہی لعل و گوہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اس کی
جو سادہ دل ہیں‌اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں

سنا ہے چشمِ تصور سے دشتِ امکاں میں
پلنگ زاویے اس کی کمر کے دیکھتے ہیں

وہ سرو قد ہے مگر بے گل مراد نہیں
کہ اس شجر پہ شگوفے ثمر کے دیکھتے ہیں

بس اک نگاہ سے لوٹا ہے قافلہ دل کا
سو رہ روان تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کے شبستاں سے متُّصل ہے بہشت
مکیں‌ اُدھر کے بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیں

کسے نصیب کہ بے پیرہن اسے دیکھے
کبھی کبھی در و دیوار گھر کے دیکھتے ہیں

رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں
چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں

کہانیاں ہی سہی ، سب مبالغے ہی سہی
اگر وہ خواب ہے تعبیر کر کے دیکھتے ہیں

اب اس کے شہر میں‌ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں
فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں

Tuesday, January 7, 2014

Uski Kathai Aankhon Main hain

اسکی کتھئی آنکھوں میں ہیں جنتر منتر سب
چاقو واقو، چھریاں وریاں، خنجر ونجر سب


جس دن سے تم روٹھیں، مجھ سے روٹھے روٹھے ہیں
چادر وادر، تکیہ وکیہ، بستر وستر سب

مجھ سے بچھڑ کے وہ بھی کہاں اب پہلے جیسی ھے
پھیکے پڑ گۓ کپڑے وپڑے، زیور شیور سب

آخر کس دن ڈوبوں گا میں فکریں کرتے ہیں
دریا وریا، کشتی وشتی، لنگر ونگر سب

Monday, January 6, 2014

Dil Peh Ik Tarfah Qayamat Kerna

دل پہ اِک طرفہ قیامت کرنا
مُسکراتے ہوئے رخصت کرنا
اچھی آنکھیں جو ملی ہیں اُس کو
کچھ تو لازم ہُوا وحشت کرنا

جُرم کس کا تھا سزا کِس کو مِلی
کیا گئی بات پہ حُجت کرنا
کون چاہے گا تمھیں میری طرح
اب کِسی سے نہ محبت کرنا
گھر کا دروازہ کھلا رکھا ہے
وقت مِل جائے تو زحمت کرنا

Sunday, January 5, 2014

Koi Nazam Aisi Likhon Kabhi

کوئی نظم ایسی لکھوں کبھی

تری بات بات کی روشنی
مرے حرف حرف میں بکھر سکے
ترے لمس کی یہ شگفتگی
مرے جسم و جاں میں اتر سکے
کوئی چاندنی کسی گہرے رنگ کے راز کی
مرے راستوں میں بکھر سکے

تری گفتگو سے بناؤں میں
کوئی داستاں کوئی کہکشاں
ہوں محبتوں کی تمازتیں بھی کمال طرح سے مہرباں
ترے بازوؤں کی بہار میں
کبھی جھولتے ہوئے گاؤں میں
تری جستجو کے چراغ کو سر شام دل میں جلاؤں
اسی جھلملاتی سی شام میں
لکھوں نظم جو ترا روپ ہو

کہیں سخت جاڑوں میں ایک دم جو چمک اٹھے
کوئی خوشگوار سی دھوپ ہو
جو وفا کی تال کے رقص کا
کوئی جاگتا سا عکس ہو
کوئی نظم ایسی لکھوں کبھی

کہ ہر ایک لفظ کے ہاتھ میں
ترے نام کے
ترے حرف تازہ کلام کے
کی راز ہوں
جنہیں منکشف بھی کروں اگر
تو جہان شعر کے باب میں
مرے دل میں رکھی کتاب میں
ترے چشم و لب بھی چمک اٹھیں
مجھے روشنی کی فضاؤں میں کہیں گھیر لیں

کوئی نظم ایسی لکھوں کبھی ...... !!

Saturday, January 4, 2014

Yeh Jo Sargshtah sey Phirtey hain

یہ جو سرگشتہ سے پھرتے ہیں کتابوں والے
اِن سے مت مِل کہ انہیں روگ ہیں خوابوں والے

اب مہ و سال کی مہلت نہیں ملنے والی
آچکے اب تو شب و روز عذابوں والے

اب تو سب دشنہ و خنجر کی زباں بولتے ہیں
اب کہاں لوگ محبّت کے نصابوں والے

جو دلوں پر ہی کبھی نقب زنی کرتے تھے
اب گھروں تک چلے آئے وہ نقابوں والے

زندہ رہنے کی تمنا ہو تو ہو جاتے ہیں
فاختاؤں کے بھی کردار عقابوں والے

نہ مرے زخم کھُلے ہیں نہ ترا رنگِ حنا
اب کے موسم ہی نہیں آئے گلابوں والے

یوں تو لگتا ہے کہ قسمت کا سکندر ہے فراز

مگر انداز ہیں سب خانہ خرابوں والے ...