Saturday, February 22, 2014

جو خیال تھے نہ قیاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے

جو خیال تھے نہ قیاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
جو محبتوں کے اساس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے

جنہیں مانتا ہی نہیں یہ دل، وہی لوگ میرے ہیں ہمسفر
مجھے ہر طرح سے جو راس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے

مجھے لمحہ بھر کی رفاقتوں کے سراب اور ستائیں گے
میری عمر بھر کی جو پیاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے

یہ خیال سارے ہیں عارضی،یہ گلاب سارے ہیں کاغذی
گلِ آرزو کی جو باس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھر گئے

جنہیں کر سکا نہ قبول میں،وہ شریک راہِ سفر ہوئے
جو مری طلب مِری آس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے

مری دھڑکنوں کے قریب تھے ،مری چاہ تھے ،مرا خواب تھے
جو روز و شب مرے پاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے

Wednesday, February 19, 2014

گزر رہے ہیں شب و روز تم نہیں آتیں

گزر رہے ہیں شب و روز تم نہیں آتیں
ریاضِ زیست ہے آزردۂ بہار ابھی
مرے خیال کی دنیا ہے سوگوار ابھی
جو حسرتیں ترے غم کی کفیل ہیں پیاری
ابھی تلک مری تنہائیوں میں بستی ہیں
طویل راتیں ابھی تک طویل ہیں پیاری
اداس آنکھیں تری دید کو ترستی ہیں

بہارِ حسن ، پہ پابندیِ جفا کب تک؟
یہ آزمائشِ صبرِ گریز پا کب تک؟

قسم تمہاری بہت غم اٹھا چکا ہوں میں
غلط تھا دعویِ صبر و شکیب، آجاؤ
قرارِ خاطرِ بیتاب، تھک گیا ہوں میں

فیض احمد فیض

Tuesday, February 18, 2014

ہم سوختہ جانوں کی خاطر آرائش عارض و لب ہی سہی

ہم سوختہ جانوں کی خاطر آرائش عارض و لب ہی سہی
جو برسوں تم کر نہ سکے وہ قتل کے ساماں اب ہی سہی


اے بادہ ناب کے رکھوالے،دو گھونٹ ادھر بھی پہنچا دے
معیارِ کرم اس محفل کا پیمانہ نام و نسب ہی سہی

جو کچھ بھی کوئی کہتا ہے کہے، اظہارِ تمنا تو ہو گا
ہم اہل جنوں کی باتوں میں کچھ پہلو ئے سوئے ادب ہی سہی

موجود ہیں پنچھی گلشن میں پھر کیوں ہے سکوت مرگ یہاں
پر شور ترانوں کے بدلے اک نغمہ زیر لب ہی سہی

اپنے پہ بھروسہ ہے جن کو، نغماتِ سحر بھی سن لیں گے
کرنوں کی دمکتی آہٹ تک نقارۃ آخر شب ہی سہی


آلودہ زُباں ہو جائے گی، انصاف کی میٹھی بولی ہے
تم اپنی روش کو مت بدلو، ہم مورد قہر و غضب ہی سہی

دیکھا ہے قتیل آخر سب نے اس شوخ کو بھی مائل بہ کرم
اس کارِ نُمایاں کے پیچھے گستاخی دستِ طلب ہی سہی

Monday, February 17, 2014

کہاں سے چل کے اے ساقی کہاں تک بات پہنچی ہے


کہاں سے چل کے اے ساقی کہاں تک بات پہنچی ہے
تری آنکھوں سے عمرِ جاوداں تک بات پہنچی ہے

مبادا بات بڑھ کر باعثِ تکلیف ہو جائے
وہیں پر ختم کر دیجے جہاں تک بات پہنچی ہے

ابھی تو اس کی آنکھوں نے لیا ہے جائزہ دل کا
ابھی تو ابتدائے داستاں تک بات پہنچی ہے

عدم جھگڑا قیامت تک گیا ہے جرمِ ہستی کا
ذرا سی بات تھی لیکن کہاں تک بات پہنچی ہے

Sunday, February 16, 2014

سحر پھونکتی ہوئی اُس کی ساحر آنکھیں

سحر پھونکتی ہوئی اُس کی ساحر آنکھیں
جادو کر کے کہاں گئیں وہ جادوگر آنکھیں


دو موسم اِک پل میں کیسے آ سکتے ہیں
وہ شاداب چہرہ، میری پت جھڑ آنکھیں

دل سینے میں ہے، لاج بچا لیتا ہے
عشق کو رُسوا کرتی ہیں، اکثر آنکھیں

بے فصل سے موسم تن بدن پہ ٹھہر گئے
خواب کہاں اُگیں، سیم زدہ بنجر آنکھیں

کون سہے گا عذاب ہجر کا پوچھا تھا
رونے والے نے کہا تھا ہنس کر، آنکھیں

کانچ جذبے، موم دل، محبت والوں کے
آگ سی باتیں اہلِ جہاں کی، پتھر آنکھیں

سحر پھونکتی ہوئی اُس کی ساحر آنکھیں
جادو کر کے کہاں گئیں وہ جادوگر آنکھیں

کب سماں تھا بہار سے پہلے

کب سماں تھا بہار سے پہلے
غم کہاں تھا بہار سے پہلے

ایک ننھا سا آرزو کا دیا
ضوفشاں تھا بہار سے پہلے

اب تماشا ہے چار تنکوں‌کا
آشیاں تھا بہار سے پہلے

اے مرے دل کے داغ یہ تو بتا
تو کہاں تھا بہار سے پہلے

پچھلی شب میں خزان کا سناٹا
ہم زباں‌تھا بہار سے پہلے

چاندنی میں‌یہ آگ کا دریا
کب رواں تھا بہار سے پہلے

بن گیا ہے سحابِ موسمِ گل
جو دھواں تھا بہار سے پہلے

لُٹ گئی دل کی زندگی ساغر
دل جواں‌تھا بہار سے پہلے

اسیرِ جسم ہوں میعادِ قید لا معلوم

اسیرِ جسم ہوں، میعادِ قید لا معلوم
یہ کس گناہ کی پاداش ہے' خدا معلوم

تری گلی بھی مجھے یوں تو کھینچتی ہے بہت
دراصل ہے مری مٹّی کہاں کی کیا معلوم

سفر ضرور ہے اور عُذر کی مجال نہیں
مزہ تو یہ ہے 'نہ منزل' نہ راستہ معلوم

دعا کروں نہ کروں سوچ ہے یہی کہ تجھے
دعا سے پہلے مرے دل کا مُدّعا معلوم


سُنی حکایتِ ہستی تو درمیاں سے سُنی
نہ ابتداؑ کی خبر ہے 'نہ انتہا معلوم

کچھ اپنے پاؤں کی ہمّت بھی چاہییے اے پیر !
یہی نہیں تو مددگاری ء عصا معلوم

طلب کریں بھی تو کیا شے طلب کریں' اے شاد !
ہمیں کو آپ نہیں اپنا مدّعا معلوم

Friday, February 14, 2014

جام ایسا تیری آنکھوں سے عطا ہو جائے

جام ایسا تیری آنکھوں سے عطا ہو جائے
ہوش موجود رہے اور نشہ ہو جائے

اس طرح میری طرف میرا مسیحا دیکھے
درد دل ہی میں رہے اور دوا ہو جائے
-♥-

تمہاری دید کو ترستی رہ گئیں میری آنکھیں

تمہاری دید کو ترستی رہ گئیں میری آنکھیں
شب ہجراں نہ چین آیا ، نہ نیند آئی ، نہ تم آئے

-♥-

میں تو یک مُشت اُسے سونپ دوں سب کچھ لیکن

میں تو یک مُشت اُسے سونپ دوں سب کچھ لیکن
اِک مٹھی میں میرے خواب کہاں آتے ہیں
-♥-
  مدتوں بعد اُسے دیکھ کر دل بھر آیا
ورنہ صحراؤں میں سیلاب کہاں آتے ہیں

Thursday, February 13, 2014

تم تم تم اور صرف تم

تم ، تم ، تم اور صرف تم
لو ختم ہوئی یہ داستان دل
-♥-

کبھی تمنا کے راستوں پر نکل پڑو


Wednesday, February 12, 2014

میں تنہائی کو تنہائی میں تنہا کیسے چھوڑ دوں

میں تنہائی کو تنہائی میں تنہا کیسے چھوڑ دوں
تنہائی نے تنہائی میں تنہا میرا ساتھ دیا ہے

یہ بھی اک تماشا ہے عشق و محبّت میں

یہ بھی اک تماشا ہے عشق و محبّت میں
دل کسی کا ہوتا ہے اور بس کسی کا چلتا ہے

Monday, February 10, 2014

آرزو کر نہ سکی ترکِ تعلق کو قبول

آرزو کر نہ سکی ترکِ تعلق کو قبول
تجھ سے بچھڑے تو تری یاد کے ہو بیٹھے

Friday, February 7, 2014

ابھی ابھی وہ ملا تھا ہزار باتیں کیں

ابھی ابھی وہ ملا تھا ہزار باتیں کیں
ابھی ابھی وہ گیا ہے مگر زمانہ ہوا
-♥-

Thursday, February 6, 2014

چلو عشق نہیں چاہنے کی عادت ہے

چلو عشق نہیں چاہنے کی عادت ہے
کیا کریں کہ ہمیں دوسروں کی عادت ہے

تو اپنی شیشہ گری کا نہ کر ہنر ضائع
میں آئینہ ہوں مجھے ٹوٹنے کی عادت ہے

وصال میں بھی وہی فاصلے سراب کے ہیں
کہ اسکو نیند مجھ کو رتجگے کی عادت ہے

تیرا نصیب ہے اے دل صدا کی محرومی
نہ وہ سخی نہ تجھے مانگنے کی عادت ہے

یہ خود اذیتی کب تک فراز تو بھی اسے
نہ کر یاد کہ جسے بھولنے کی عادت ہے

Wednesday, February 5, 2014

ﮐﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﮨﻮ ﺟﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﻭﺣﺸﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﮨﻮ

ﺩﯾﺎﺭ ﻧﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮﺍ ﺷﺒﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﮨﻮ۔۔
ﮐﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﮨﻮ ﺟﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﻭﺣﺸﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﮨﻮ

ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺟﮭﻮﭦ ﺑﮭﯽ ﺑﻮﻟﻮﮞ ﺗﻮ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺳﭻ ﺑﻮﻟﮯ
ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺰﺍﺝ ﮐﮯ ﺳﺐ ﻣﻮﺳﻤﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﮨﻮ

ﻭﮦ ﻣﯿﺮﮮ ﻧﺎﻡ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺳﮯ ﻣﻌﺘﺒﺮ ﭨﮭﺮﮮ
ﮔﻠﯽ ﮔﻠﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﺭﺳﻮﺍﺋﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﮨﻮ

ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻧﮧ ﺁﻭﮞ‘ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﺍ ﮨﻮ ﮐﮯ ﺭﮨﮯ
ﻣﯿﮟ ﮔﺮ ﭘﮍﻭﮞ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﭘﺴﺘﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﮨﻮ

ﻭﮦ ﺧﻮﺍﺏ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﺳﮯ
ﻣﯿﺮﮮ ﺧﯿﺎﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺐ ﻣﻨﻈﺮﻭﮞ ﮐﺎ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﮨﻮ

ﮐﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﮨﻮ ﺟﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﻭﺣﺸﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﮨﻮ

ﻣﯿﺮﯼ ﻭﺣﺸﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﺎﺗﮭﯽ

Tuesday, February 4, 2014

یہ حدیں نہ توڑ دینا ، میرے دائرے میں رہنا

یہ حدیں نہ توڑ دینا ، میرے دائرے میں رہنا
مجھے اپنے دل میں رکھنا ، میرے حافظے میں رہنا

میرا بوجھ خود اٹھانا ، میرا کرب آپ سہنا
میرے زخم بانٹ لینا ، میرے رتجگے میں رہنا

میرے حکم خود سننا ، میری مہر خود لگانا
میرے مشورے میں ہونا ، میرے فیصلے میں رہنا

میرے منظروں میں بسنا ، میری گفتگو میں ہونا
میرے لمس میں سمانا ، میرے ذائقے میں رہنا

کبھی دھوپ کے نگر میں میرا ساتھ چھوڑ جانا
کبھی میرا عکس بن کر میرے آئینے میں رہنا

کبھی منزلوں کی صورت میری دسترس سے باہر
کبھی سنگ میل بن کر میرے راستے میں رہنا

میرے ہاتھ کی لکیریں ترا نام بن کے چمکیں
میری خواہشوں کی خوشبو ، میرے زائچے میں رہنا

چلی ہے شہر میں اب کے ہوا ترکِ تعلق کی

چلی ہے شہر میں اب کے ہوا ترکِ تعلق کی
کہیں ہم سے نہ ہو جائے خطا ترکِ تعلق کی


بناوٹ گفتگو میں ، گفتگو بھی اکھڑی اکھڑی سی
تعلق رسمی رسمی سا ، ادا ترکِ تعلق کی

ہمیں وہ صبر کے اس موڑ تک لانے کا خواہاں ہے
کہ تنگ آجائیں ہم ، مانگیں دعا ترکِ تعلق کی

بہانے ڈھونڈتا رہتا ہے وہ ترک مراسم کے
اسے ویسے بھی عادت ہے ذرا ترکِ تعلق کی

یہ بندھن ہم نے باندھا تھا سلامت ہم کو رکھنا تھا
بہت کوشش تو اس نے کی سدا ترکِ تعلق کی

وہ ملتا بھی محبت سے ہے لیکن عادتاً ساجد
کئے جاتا ہے باتیں جا بجا ترکِ تعلق کی