Wednesday, April 24, 2013

بھنور آنے کو ہے

بھنور آنے کو ہے اے اہلِ کشتی ناخدا چُن لیں
چٹانوں سے جو ٹکرائے وہ ساحل آشنا چُن لیں

زمانہ کہہ رہا ہے مَیں نئی کروٹ بدلتا ہُوں
انوکھی منزلیں ہیں کچھ نرالے رہنما چُن لیں

اگر شمس و قمر کی روشنی پر کُچھ اجارہ ہے
کِسی بے دَرد ماتھے سے کوئی تارِ ضیا چُن لیں

یقیناً اب عوامی عَدل کی زنجیر چھنکے گی
یہ بہتر ہے کہ مُجرم خود ہی جُرموں کی سَزا چُن لیں

اسیری میں کریں حُسنِ گلستاں کی نگہانی
قفس میں بیٹھ کر طائر ذرا رنگِ فضا چُن لیں

بگولے نکہتِ گل کے نمائندے کہاں ساغرؔ
سُنیں جو بات پُھولوں کی وہ ہمرازِ صبا چُن لیں

ساغرؔ صدیقی

Tuesday, April 23, 2013

ہم دیکھیں گے

ہم دیکھیں گے

لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
ہم دیکھیں گے
جو لوحِ ازل پہ لکھا ہے
ہم دیکھیں گے

جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں
روئی کی طرح اُڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
یہ دھرتی دھڑ دھڑ* دھڑکے گی
اور اہلِ حُکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

جب ارضِ خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہلِ صفا، مردودِ حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
جو منظر بھی ہے ناظر بھی
اٹھے گا اناالحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
اور راج کرے گی خلقِ خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

فیض احمد فیض

Monday, April 22, 2013

اے ارضِ وطن مان گئے ہم

جی جان سے اے ارضِ وطن مان گئے ہم
جب تو نے پکارا ترے قربان گئے ہم
جو دوست ہو اس پہ محبت کی نظر کی
دشمن پہ ترے صورتِ طوفان گئے ہم

ہم ایسے وفادار و پرستار ہیں تیرے
جو تو نے کہا تیرا کہا مان گئے ہم
مرہم ہیں ترے ہونٹ مسیحا ہے تری زُلف
ہم موجۂ گل تھے کہ پریشان گئے ہم

افسوں نہ کوئی چلنے دیا حیلہ گراں کا
ہر شکل عدو کی ترے پہچان گئے ہم
خاکِ شہداء نے ترے پرچم کو دعا دی
لہرا کے جو پرچم نے کہا جان گئے ہم

عبیداللہ علیم

Sunday, April 21, 2013

بول کہ لب آزاد ہیں تیرے

 بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول، زباں اب تک تیری ہے
تیرا ستواں جسم ہے تیرا
بول کہ جاں اب تک تیری ہے
دیکھ کے آہن گر کی دکاں میں
تند ہے شعل، سرخ ہے آہن
کھلنے لگے قفلوں کے دہانے
پھیلا ہر اک زنجیر کا دامن
بول، یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم و زباں کی موت سے پہلے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول، جو کچھ کہنا ہے کہہ لے
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے

فیض احمد فیض

Friday, April 19, 2013

اِک ایسا آئین بناؤ

میرے وطن کے راہنماؤ
اِک ایسا آئین بناؤ
جس میں ہو صدیقؓ کی عظمت
جس میں ہو عثمانؓ کی عقیدت
جس میں ہو فاروقؓ کی جرئات
جس میں ہو حیدرؓ کی شجاعت
مِٹ جائیں ظلمات کے گھاؤ
اِک ایسا آئین بناؤ

طارقؓ کی تدبیر ہو جس میں
خالدؓ کی تقدیر ہو جِس میں
مجحن کی زنجیر ہو جس میں
قرآں کی تاثیر ہو جِس میں
مِلّت کے جذبات جگاؤ
اِک ایسا آئین بناؤ

عقل و خرد کی آنکھ کا تارا
طوفاں میں مضبوط کنارا
مفلس اور نادار کا پیارا
جہد و عمل کا بہتا دھارا
فکر و نظر کی شمع جلاؤ
اِک ایسا آئین بناؤ

سر توڑے جو مغروروں کا
ساتھی ہو جو مہجوروں کا
دارِ ستم کے منصوروں کا
محکُوموں کا مجبوروں کا
چل نہ سکے زردار کا داؤ
اِک ایسا آئین بناؤ

خدمتِ انساں کام ہو جس کا
فیضِ سخاوت عام ہو جس کا
کام فقط اسلام ہو جس کا
شانِ سلف پیغام ہو جس کا
وقت کے پرچم کو لہراؤ
اِک ایسا آئین بناؤ


ساغرؔ صدیقی

Tuesday, April 16, 2013

زندہ باد اے وطن

جانِ فردوس ہیں تیرے کوہ و دمن
زندہ باد اے وطن، زندہ باد اے وطن
تُجھ پہ صدقے ہے تن تُجھ پہ قُرباں ہے مَن
زندہ باد اے وطن، زندہ باد اے وطن

تیرے دریاؤں میں ہیں سفینے رواں
اے مقامِ جہانگیر و نُورجہاں
تیرا ہر قریہ ہے گُلستاں بُوستاں
تیرے کانٹے بھی ہیں مجھ کو غُنچہ دہن
زندہ باد اے وطن، زندہ باد اے وطن

تیرے چک اور گاؤں اِرم زاد ہیں
کھیتیاں آسمانوں کی بُنیاد ہیں
تیرے دیہات تقدیس آباد ہیں
تیرے نغمے نئے اور ساز کُہن
زندہ باد اے وطن، زندہ باد اے وطن

تُجھ میں لاہور ہے، تُجھ میں ملتان ہے
تُو کہ وارث کا روشن قلم دان ہے
تُو بلوچوں پٹھانوں کا قرآن ہے
تُو کہ ایمان کے چاند کی ہے کِرن
زندہ باد اے وطن، زندہ باد اے وطن

تیرے آغوش میں ہے قلندر کا در
تیری مٹی میں پنہاں ہے گنجِ شکر
تُو نے دیکھے ہیں داتا سے اہل نظر
تُو کہ سُلطان باہو کی ہُو کا وزن
زندہ باد اے وطن، زندہ باد اے وطن

تُو ہے خیبر کے در کا امیں اے وطن
کام تیرا ستارہ جبیں اے وطن
کوئی دُنیا میں تُجھ سا نہیں اے وطن
تیرے ذرّے بھی ہیں مُجھ کو دُرِّ عدن
زندہ باد اے وطن، زندہ باد اے وطن

ساغرؔ صدیقی

Monday, April 15, 2013

میں نہیں مانتا

دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو، صبح بےنور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

میں بھی خائف نہیں تختہ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو، جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

پھول شاخوں پہ کھلنے لگے،تم کہو
جام رندوں کو ملنے لگے،تم کہو
چاک سینوں کے سلنے لگے ،تم کہو
اِس کھلے جھوٹ کو، ذہن کی لوٹ کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمھارا فسوں
چارہ گر میں تمہیں کس طرح سے کہوں
تم نہیں چارہ گر، کوئی مانے، مگر
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

حبیب جالب

Sunday, April 14, 2013

Neend Ki Talab Hmain

Neend Ki Talab Hmain Bi Hai Aye Dost

Par Ratoon Ko Jagte Rehna Acha Lagta Hai

Muje Maloom Hai Meri Kismaat Mai Nahi Ho Tum

Phir Bhi Khuda Se Mangte Rehna Acha Lagta Hai


*4u*

نثار میں تری گلیوں کے

نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے
ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظمِ بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد

بہت ہے ظلم کہ دستِ بہانہ جو کے لیے
جو چند اہل جنوں تیرے نام لیوا ہیں
بنے ہیں اہلِ ہوس، مدعی بھی منصف بھی
کسیے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں
مگر گزارنے والوں کے دن گزرتے ہیں
ترے فراق میں یوں صبح شام کرتے ہیں

بجھا جو روزنِ زنداں تو دل یہ سمجھا ہے
کہ تیری مانگ ستاروں سے بھر گئی ہوگی
چمک اُٹھے ہیں سلاسل تو ہم نے جانا ہے
کہ اب سحر ترے رخ پر بکھر گئی ہوگی
غرض تصورِ شام و سحر میں جیتے ہیں
گرفتِ سایۂ دیوار و در میں جیتے ہیں

یونہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق
نہ اُن کی رسم نئی ہے، نہ اپنی ریت نئی
یونہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول
نہ اُن کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی
اسی سبب سے فلک کا گلہ نہیں کرتے
ترے فراق میں ہم دل بُرا نہیں کرتے

گر آج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے
یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں
گر آج اَوج پہ ہے طالعِ رقیب تو کیا
یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں
جو تجھ سے عہدِ وفا استوار رکھتے ہیں
علاجِ گردشِ لیل و نہار رکھتے ہیں

فیض احمد فیض

Saturday, April 13, 2013

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے
تیرے ہاتوں*کی شمعوں کی حسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں میں مارے گئے

سولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے
تیرے ہونٹوں*کی لالی لپکتی رہی
تیری زلفوں کی مستی برستی رہی
تیرے ہاتھوں کی چاندی دمکتی رہی

جب گھلی تیری راہوں میں شامِ ستم
ہم چلے آئے، لائے جہاں تک قدم
لب پہ حرفِ غزل، دل میں قندیلِ غم
اپنا غم تھا گواہی ترے حسن کی
دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

نارسائی اگر اپنی تقدیر تھی
تیری الفت تو اپنی ہی تدبیر تھی
کس کا شکوہ ہے گر شوق کے سلسلے
ہجر کی قتل گاہوں سے سب جا ملے

قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
جن کی راہِ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
کر چلے جن کی خاطر جہاں گیر ہم
جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم
ہم جو تاریک راہوں میں* مارے گئے

فیض احمد فیض

Thursday, April 11, 2013

Terey Ekhlaass Say Mohabbat

Terey Ekhlaass Say Mohabbat Ki Hai
Terey Ehsaas Say Mohabbat Ki Hai

Tu Merey Pass Nahin Hai Phir Bhi
Teri Yaad Say Mohabbat Ki Hai
Kabhi Tu Nay Bhi Mujhay Yaad Kya Ho Ga
Main Nay Un Lamhaat Say Mohabbat Ki Hai
Jin Main Ho Sirf Teri Aur Meri Baatain
Main Nay Un Auqaat Say Mohabbat Ki Hai
Jo Mahekay Ho Sirf Teri Hi Mohabbat Say
Main Nay Un Jazbaat Say Mohabaat Ki Hai
Tujh Say Milna Tu Ab Khuwaab Sa Lagta Hai ...
Main Nay Terey Intezaar Say Mohabbat Ki Hai...


*4u*

وطن کو جاں نثار دو

چمن چمن، کلی کلی، روِش روِش پُکار دو
وطن کو سرفروش دو، وطن کو جاں نثار دو

جو اپنے غیضِ بے کراں سے کوہسارِ پیس دیں
جو آسماں کو چِیر دیں، ہمیں وہ شہسوار دو

یہی ہے عظمتوں کا اِک اصُولِ جاوداں حضُور
امیر کو شجاعتیں، غریب کو وقار دو

نظر نظر میں موجزن تجلّیوں کے قافلے
وہ جذبۂ حیاتِ نَو، بشر بشر اُبھار دو

شعور کے لباس میں صداقتیں ہیں مُنتظر
خلوص و اعتبار کے جہان کو نِکھار دو

تصوّرات زندگی کو پِھر لہُو کا رنگ دیں
چلو! جنُوں کی وُسعتوں پہ دانشوں کو وار دو

فضائیں جس کی نکہتوں سے ہوں وقارِ گُلستاں
تو ایسے ایسے پُھول کو ستارۂ بہار دو

جو چشم و دل کے ساتھ ساتھ میکدے کو پُھونک دے
مُجھے خُدا کے واسطے وہ جامِ پُراسرار دو

چھلک رہا ہے خلوتوں میں ساغرِؔ مشاہدات
اُٹھو سنخورو! زمیں پہ کہکشاں اُتار دو

ساغرؔ صدیقی