بھنور آنے کو ہے اے اہلِ کشتی ناخدا چُن لیں
چٹانوں سے جو ٹکرائے وہ ساحل آشنا چُن لیں
چٹانوں سے جو ٹکرائے وہ ساحل آشنا چُن لیں
زمانہ کہہ رہا ہے مَیں نئی کروٹ بدلتا ہُوں
انوکھی منزلیں ہیں کچھ نرالے رہنما چُن لیں
اگر شمس و قمر کی روشنی پر کُچھ اجارہ ہے
کِسی بے دَرد ماتھے سے کوئی تارِ ضیا چُن لیں
یقیناً اب عوامی عَدل کی زنجیر چھنکے گی
یہ بہتر ہے کہ مُجرم خود ہی جُرموں کی سَزا چُن لیں
اسیری میں کریں حُسنِ گلستاں کی نگہانی
قفس میں بیٹھ کر طائر ذرا رنگِ فضا چُن لیں
بگولے نکہتِ گل کے نمائندے کہاں ساغرؔ
سُنیں جو بات پُھولوں کی وہ ہمرازِ صبا چُن لیں
ساغرؔ صدیقی