Tuesday, October 6, 2015

ہاۓ اک شخص جسے ہم نے بھلایا بھی نہیں

ہاۓ اک شخص جسے ہم نے بھلایا بھی نہیں
یاد آنے کی طرح یاد وہ آیا بھی نہیں
جانے کس موڑ پہ لے آئی ہمیں تری طلب
سر پہ سورج بھی نہیں راہ میں سایا بھی نہیں

وجہ رسوائی احساس ہوا ہے کیا کیا
ہاۓ وہ لفظ جو لب تک مرے آیا بھی نہیں

اے محبت یہ ستم کیا کہ جدا ہوں خود سے
کوئی ایسا مرے نزدیک تو آیا بھی نہیں

یا ہمیں زلف کے ساۓ ہی میں نیند آتی تھی
یا میسر کسی دیوار کا سایا بھی نہیں

بارہا دل تریی قربت سے دھڑک اٹھا ہے
گو ابھی وقت محبت میں وہ آیا بھی نہیں

آپ اس شخص کو کیا کہیے کہ جس نے امیدؔ
غم دیا غم کو دل آزار بنایا بھی نہیں

Sunday, October 4, 2015

کبھی اس سے نہیں کوئی وعدہ چاہا

کبھی اس سے نہیں کوئی وعدہ چاہا
بغیر غرض اسے بہت بہت زیادہ چاہا

گھرا رہتا ہے ان ساحر آنکھوں میں احمر
جب بھی اسے کبھی بھلانے کا ارادہ چاہا

Friday, October 2, 2015

میں جہاں بھی جاؤں جاناں

میں جہاں بھی جاؤں جاناں
رہتی ہیں میرے ساتھ ساتھ
ہر پل
ہر جاء
تیری نظر کی شوخیاں
تیری چشم _ ساحرانہ

احمر

Tuesday, September 22, 2015

نظر نظر بیقرار سی ہے نفس نفس میں شرار سا ہے

نظر نظر بیقرار سی ہے نفس نفس میں شرار سا ہے
میں جا نتا ہوں کہ تم نہ آؤگے پھر بھی کچھ انتظار سا ہے

مرے عزیزو! میرے رفیقو! چلو کوئی داستان چھیڑو
غم زمانہ کی بات چھوڑو یہ غم تو اب سازگار سا ہے

وہی فسر دہ سا رنگ محفل وہی ترا ایک عام جلوہ
مری نگاہوں میں بار سا تھا مری نگا ہوں میں بار سا ہے

کبھی تو آؤ ! کبھی تو بیٹھو! کبھی تو دیکھو! کبھی تو پوچھو
تمہاری بستی میں ہم فقیروں کا حال کیوں سوگوار سا ہے

چلو کہ جشن بہار دیکھیں چلو کہ ظرف بہار جا نچیں
چمن چمن روشنی ہوئی ہے کلی کلی پہ نکھار سا ہے

یہ زلف بر دوش کون آیا یہ کس کی آہٹ سے گل کھلے ہیں
مہک رہی ہے فضائے ہستی تمام عالم بہار سا ہے

ساغر صدیقی

Sunday, September 6, 2015

کسی نظر کو تیرا انتظار آج بھی ہے




کسی نظر کو تیرا انتظار آج بھی ہے
کہاں ہو تم کہ یہ دل بےقرار آج بھی ہے

وہ پیار جس کے لیئے ہم نے چھوڑ دی دنیا
وفا کی راہ میں گھاءل وہ پیار آج بھی ہے
ناجانے دیکھ کے کیوں ان کو یہ ہوا احساس
میرے دل پہ اختیار انہیں آج بھی ہے

Saturday, September 5, 2015

میری آنکھوں کو سُوجھتا ہی نہیں

میری آنکھوں کو سُوجھتا ہی نہیں
یا مقدر میں راستہ ہی نہیں

وہ بھرے شہر میں کسی سے بھی
میرے بارے میں پوچھتا ہی نہیں

پھر وہی شام ہے وہی ہم ہیں
ہاں مگر دل میں حوصلہ ہی نہیں


ہم چلے اُس کی بزم سے اُٹھ کر
اور وہ ہے کہ روکتا ہی نہیں


دل جو اک دوست تھا مگر وہ بھی
چپ کا پتھر ہے بولتا ہی نہیں


میں تو اُس کی تلاش میں گُم ہوں
وہ کبھی مجھ کو ڈھونڈتا ہی نہیں

Wednesday, September 2, 2015

مجھ کو کافی ہے زندگی کے لئے

 مجھ کو کافی ہے زندگی کے لئے
تو جو مل جائے دو گھڑی کے لئے

Tuesday, September 1, 2015

وہ ہاتھ پرائے ہو بھی چکے

وہ ہاتھ پرائے ہو بھی چکے
اب دُورکا رشتہ ہے قیصر۔

آتی ہےمیری تنہائی میں
 خوشبوِحناء دھیرے دھیرے

Monday, August 31, 2015

حال کُھلتا نہیں جبینوں سے

حال کُھلتا نہیں جبینوں سے
رنج اُٹھائے ہیں کن قرینوں سے
رات آہستہ گام اُتری ہے
درد کے ماہتاب زینوں سے
ہم نے سوچا نہ اُس نے جانا ہے
دل بھی ہوتے ہیں آبگینوں سے
کون لے گا شرارِ جاں کا حساب
دشتِ امروز کے دفینوں سے
تو نے مژگاں اُٹھا کے دیکھا بھی
شہر خالی نہ تھا مکینوں سے
آشنا آشنا پیام آئے
اجنبی اجنبی زمینوں سے
جی کو آرام آ گیا ہے اداؔ
کبھی طوفاں، کبھی سفینوں سے

Sunday, August 30, 2015

پتھر بنا دیا مجھے، رونے نہیں دیا

پتھر بنا دیا مجھے، رونے نہیں دیا
دامن بھی تیرے غم نے بھگونے نہیں دیا

تنہائیاں تمہارا پتہ پوچھتی رہیں
شب بھر تمہاری یاد نے سونے نہیں دیا

آنکھوں میں آ کے بیٹھ گئی اشکوں کی لہَر
پلکوں پہ کوئی خواب پرونے نہیں دیا

دل کو تمہارے نام کے آنسو عزیز تھے
دنیا کا کوئی درْد سمونے نہیں دیا

ناصر یُوں اُس کی یاد چلی ہاتھ تھام کے
میلے میں اِس جہان کے کھونے نہیں دیا

Saturday, August 29, 2015

بے رُخی تُو نے بھی کی عذرِ زمانہ کر کے

بے رُخی تُو نے بھی کی عذرِ زمانہ کر کے
ہم بھی محفل سے اٹھ آئے ہیں بہانہ کر کے

کتنی باتیں تھیں کہ نہ کہنا تھیں وہ کہہ بھیجی ہیں
اب پشیمان ہیں قاصد کو روانہ کر کے


جانتے ہیں وہ تنک خو ہے، سو اپنا احوال
ہم سنا دیتے ہیں اوروں کا فسانہ کر کے


کیا کہیں کیا ہے اُن کی آنکھوں میں کہ رکھ دیتی ہیں
ایک اچھے بھلے انساں کو دیوانہ کر کے


کوئی ویرانۂ ہستی کی خبر کیا لاتا
خود بھی ہم بھول گئے دفن خزانہ کر کے


آنکھ مصروفِ نظارہ تھی تو ہم خوش تھے فراز
اُس نے کیا ظلم کیا دل میں ٹھکانہ کر کے

Friday, August 28, 2015

ہم نے سب شعر میں سنوارے تھے

ہم نے سب شعر میں سنوارے تھے
ہم سے جتنے سخن تمہارے تھے

رنگ و خوشبو کے، حسن و خوبی کے
تم سے تھے جتنے استعارے تھے

تیرے قول و قرار سے پہلے
اپنے کچھ اور بھی سہارے تھے

جب وہ لعل و گہر حساب کیے
جو ترے غم پہ دل نے وارے تھے

میرے دامن میں آ گرے سارے
جتنے طشتِ فلک میں تارے تھے

عمرِ جاوید کی دعا کرتے
فیض اتنے وہ کب ہمارے تھے

Thursday, August 27, 2015

ﺳﻨﻮ ! ﻗﺴﻤﺖ ﺳﮯ ﻟﮍﻧﮯ ﮐﯽ

ﺳﻨﻮ ! ﻗﺴﻤﺖ ﺳﮯ ﻟﮍﻧﮯ ﮐﯽ
ﮐﺒﮭﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ
ﻣﻘﺪﺭ ﺟﺐ ﻣﺨﺎﻟﻒ ﮨﻮ
ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ ﺑﮯ ﺍﺛﺮ ﺟﺎﺋﯿﮟ
ﺗﻮ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﻐﺎﻭﺕ ﮐﯽ
ﮐﺒﮭﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ
ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻠﻨﮯ ﮐﯽ
ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺑﺴﻨﮯ ﮐﯽ
ﮐﺒﮭﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ
ﮐﺴﯽ ﺍﮎ ﺷﺨﺺ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ
ﺳﺒﮭﯽ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﮨﻮ ﺟﺎﻧﺎ
ﮐﮩﺎﮞ ﮐﯽ ﯾﮧ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﮯ
ﻣﺤﺒﺖ ﯾﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ
ﻣﺤﺒﺖ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﻣﺤﺒﺖ ﻋﮑﺲ ﮨﮯ ﺭﺏ ﮐﺎ
ﺟﺒﮭﯽ ﯾﮧ ﻣﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﯽ
ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ
ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻠﺘﯽ ﮨﮯ

Wednesday, August 26, 2015

جنوں میں شوق کی گہرائیوں سے ڈرتا رہا

جنوں میں شوق کی گہرائیوں سے ڈرتا رہا
میں اپنی ذات کی سچائیوں سے ڈرتا رہا

محبتوں سے شناسا ہوا میں جس دن سے پھر اسکے بعد شناسایوں سے ڈرتا رہا

وہ چاہتا تھا کہ تنہا ملوں تو بات کرے
میں کیا کروں کہ میں تنہائیوں سے ڈرتا رہا

میں اپنے باپ کا یوسف تھا اسلئے محسن
سکوں سے سو نہ سکا بھائیوں سے ڈرتا رہا

محسن نقوی

Tuesday, August 25, 2015

تو اس قدر مجھے اپنے قریب لگتا ہے

تو اس قدر مجھے اپنے قریب لگتا ہے
تجھے الگ سے جو سوچوں عجیب لگتا ہے

Monday, August 24, 2015

آتے آتے، میرا نام سا ره گیا

آتے آتے، میرا نام سا ره گیا
اس کے ہونٹوں پہ کچھ کانپتا ره گیا
وه میرے سامنے ہی گیا اور میں
راستے کی طرح دیکهتا ره گیا
جهوٹ والے کہیں سے کہیں بڑھ گئے
اور میں تها کہ سچ بولتا ره گیا

آندهیوں کے ارادے تو اچھے نہ تهے
یہ دیا کیسے جلتا ہوا ره گیا

ان کی آنکهوں سے کیسے چهلکنے لگا
میرے ہونٹوں پہ جو ماجرا ره گیا

ایسے بچهڑے سبهی رات کے موڑ پر
آخری ہمسفر راستہ ره گیا

سوچ کر آؤ کوئے تمنا ہے یہ
جان من جو یہاں ره گیا ره گیا


وسیم بریلوی

Sunday, August 23, 2015

ہاتھ چھوٹیں بھی تو رشتے نہیں چھوڑا کرتے

ہاتھ چھوٹیں بھی تو رشتے نہیں چھوڑا کرتے
وقت کی شاخ سے لمحے نہیں توڑا کرتے

جس کی آواز میں سلوٹ ہو ،نگاہوں میں شکن
ایسی تصویر کے ٹکڑ ے نہیں جو ڑا کرتے
لگ کے ساحل سے جو بہتا ہے اسے بہنے دو
ایسے دریا کا کبھی رُخ نہیں موڑا کرتے
جاگنے پر بھی نہیں آنکھ سے گرتیں کرچیں
اس طرح خوابوں سے آنکھیں نہیں پھوڑا کرتے
شہد جینے کاملا کرتا ہے تھوڑا تھوڑا
جانے والوں کے لیے دِل نہیں تھوڑا کرتے
جمع ہم ہوتے ہیں تقسیم بھی ہوجاتے ہیں
ہم تو تفریق کے ہندسے نہیں جوڑا کرتے
جا کے کہسار سے سر مارو کہ آواز تو ہو
خستہ دیواروں سے ماتھا نہیں پھوڑا کرتے

Saturday, August 22, 2015

گفتگو اچھی لگی ذوقِ نظر اچھا لگا

گفتگو اچھی لگی ذوقِ نظر اچھا لگا
مدتوں کے بعد کوئی ہمسفر اچھا لگا
دل کا دکھ جانا تو دل کا مسئلہ ہے پر ہمیں
اُس کا ہنس دینا ہمارے حال پر اچھا لگا

ہر طرح کی بے سر و سامانیوں کے باوجود
آج وہ آیا تو مجھ کو اپنا گھر اچھا لگا

باغباں گلچیں کو چاہے جو کہے ہم کو تو پھول
شاخ سے بڑھ کر کفِ دلدار پر اچھا لگا

کون مقتل میں نہ پہنچا کون ظالم تھا جسے
تیغِ قاتل سے زیادہ اپنا سر اچھا لگا

ہم بھی قائل ہیں وفا میں استواری کے مگر
کوئی پوچھے کون کس کو عمر بھر اچھا لگا

اپنی اپنی چاہتیں ہیں لوگ اب جو بھی کہیں
اک پری پیکر کو اک آشفتہ سر اچھا لگا

میر کے مانند اکثر زیست کرتا تھا فراز
تھا تو وہ دیوانہ سا شاعر مگر اچھا لگا

Friday, August 21, 2015

تیرے بنا کبھی چین سے بسر نہ ہوئی

تیرے بنا کبھی چین سے بسر نہ ہوئی
یہ اور بات ہے کہ اس کی تجھے خبر نہ ہوئی
میں کہکشاں میں بھی تجھکو تلاش کرلیتا
یہ کہکشاں بھی مگر تیری رہ گزر نہ ہوئی
کتنا عجیب تھا ترے دیار کا راستہ
کہ جہاں چاندنی بھی میری ہمسفر نہ ہوئی

Thursday, August 20, 2015

یہ اداسیوں کے موسم

یہ اداسیوں کے موسم
یونہی بے وجہ تو نہیں ہیں
تیری چاہتوں نے تھکا دیا
تیری یاد نے ستا دیا ہے
جہاں بھی گئے تجھے تلاشا
ہم بھی تھے رونق محفل کبھی
تیری وحشتوں نے ہمیں اجنبی بنا دیا

Saturday, August 15, 2015

مدت سے خامشی ہے چلو آج مر چلیں

مدت سے خامشی ہے چلو آج مر چلیں
دو چار دن تو گھر میں ذرا انجمن رہے

Friday, August 14, 2015

تم کو جانتے نہیں پر چاہتے ہیں ہم

میری جاناں
*
تم کو جانتے نہیں
پر چاہتے ہیں ہم
دن بھر کھوجتے نہیں
پر سوچتے ہیں ہم
تمہارے دل میں رہتے نہیں
پر تمہارے ہیں ہم
تم کو شاید پائیں گے نہیں
پر اپنائیں گے ہم

جیوں میں کبھی نہ مل پاؤ
بس بچھڑ جاؤ گی تم
شاید میری نہ بن پاؤ
مگر مسکراؤ گی تم
رات اندھیری ہوگی
پھر بھی جھلملاؤ گی تم
ہمیں اور کوئی نہیں
بس یاد آؤ گی تم
*
بس 
یاد آؤ گی
تم
صرف تم