Saturday, December 31, 2016

دیکھا ہے میری نظروں نے

دیکھا ہے  میری نظروں نے
اک رنگ چھلکتے پیمانے کا
یوں کھلتی ہے آنکھ کسی کی
جیسے کھلے در مئیخانے کا

Saturday, December 3, 2016

بہت دنوں سے نہیں اپنے درمیاں وہ شخص

بہت دنوں سے نہیں اپنے درمیاں وہ شخص
اداس کر کے ہمیں چل دیا کہاں وہ شخص

قریب تھا تو کہا ہم نے سنگدل بھی اسے
 ہوا جو دور تو لگتا ہے جان- جاں وہ شخص

اس ایک شخص میں تھیں دلربائیاں کیا کیا
ہزار لوگ ملیں گے مگر کہاں وہ شخص

وہ جس کے نقش- قدم سے چراغ جلتے تھے
جلے چراغ تو خود بھی بنا دھواں وہ شخص

چھپا لیا جسے پت جھڑ کے زرد پتوں نے
 ابھی تلک ہے بہاروں پہ حکمراں وہ شخص

قتیل!! کیسے بھلائیں گے اہل- درد اسے
دلوں میں چھوڑ گیا اپنی داستاں وہ شخص

Friday, December 2, 2016

آج تنہائی کسی ہمدمِ دیریں کی طرح

آج تنہائی , کسی  ہمدمِ  دیریں  کی  طرح
کرنے آئی ہے مری ساقی گری شام ڈھلے
منتظر بیٹھے ہیں ہم دونوں کہ مہتاب اُبھرے
اور ترا عکس جھلکنے لگے ہر سائے تلے

فیض احمد فیض

Thursday, December 1, 2016

شکستہ دل تھے ترا اعتبار کیا کرتے

شکستہ دل تھے ترا اعتبار کیا کرتے
جو اعتبار بھی کرتے تو پیار کیا کرتے
ذرا سی دیر کو بیٹھے تھے پھر اٹھا نہ گیا
شجر ہی ایسا تھا وہ سایہ دار، کیا کرتے
شب انتظار میں، دن یاد- یار میں کاٹے
اب اور عزت- لیل و نہار کیا کرتے

کبھی قدم سفر- شوق میں رکے ہی نہیں
تو سنگ میل بھلا ہم شمار کیا کرتے

ستم شناس- محبت تو جاں پہ کھیل گئے
نشان- ستم- روزگار کیا کرتے

ہماری آنکھ میں آنسو نہ اس کے لب پہ ہنسی
خیال خاطر- ابر- بہار کیا کرتے

وہ ناپسند تھا لیکن اسے بھلایا نہیں
جو بات بس میں نہ تھی اختیار کیا کرتے

درون خانہء دل کیسا شور ہے ساجد
ہمیں خبر تھی مگر آشکار کیا کرتے


(ساجد امجد)

Tuesday, September 6, 2016

ہر بات زندگی میں بڑی دیر سے ہوئی

ہر بات زندگی میں بڑی دیر سے ہوئی
منزل پہ اؔ لیئے تو ہمیں ہمسفر ملے

Wednesday, July 13, 2016

لفظ ٹوٹے لب اظہار تک آتے آتے

لفظ ٹوٹے لب اظہار تک آتے آتے
مر گئے ہم ترے معیار تک آتے آتے