Sher-o-Shairy
Saturday, May 31, 2014
جانے وہ کیسے لوگ تھے
جانے وہ کیسے لوگ تھے
جن کے پیار کو پیار ملا
Friday, May 30, 2014
وہ ہمیں چھوڑ کے اک شام گئے تھے ناصر
وہ ہمیں چھوڑ کے اک شام گئے تھے ناصر
زندگی اپنی اسی شام سے آگے نہ بڑھی
Thursday, May 29, 2014
تیری یادوں سے سجے ہیں رات دن میرے
تیری یادوں سے سجے ہیں رات دن میرے
تجھے اگر بھولا تو ویراں ہو جائے گا احمر
Wednesday, May 28, 2014
یاد آیا تھا بچھڑنا تیرا
یاد آیا تھا بچھڑنا تیرا
پھر نہیں یاد کہ کیا یاد آیا
یہ مُحبّت بھی ہـے کیا روگــــ فرازؔ
جس کو بُھولـے وہ سدا یاد آیا
Tuesday, May 27, 2014
دل جو تھا اک آبلہ پھوٹا گیا
دل جو تھا اک آبلہ پھوٹا گیا
رات کو سینہ بہت کوٹا گیا
دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا
Monday, May 26, 2014
کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا تیرا
کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا تیرا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرہ تیرا
ہم بھی وہیں موجود تھے، ہم سے بھی سب پوچھا کیے
ہم ہنس دیئے، ہم چپ رہے، منظور تھا پردہ تیرا
اس شہر میں کس سے ملیں، ہم سے تو چھوٹیں محفلیں
ہر شخص تیرا نام لے، ہر شخص ہے دیوانہ تیرا
کوچے کو تیرے چھوڈ کر، جوگی ہی بن جائیں مگر
جنگل تیرے، پربت تیرے، بستی تیری، صحرا تیرا
ہم اور رسمِ بندگی ، آشفتگی ، اوفتگی
احسان ہے کیا کیا تیرا، اے حسن بے پروا تیرا
دو اشک جانے کس لئے، پلکوں پہ آکے ٹک گیے
الطاف کی بارش تیری، اکرام کا دریا تیرا
اے بے دریغ و بے ایماں! ہم نے کبھی کی ہے فغاں؟
ہم کو تیری وحشت سہی، ہم کو سہی سواد تیرا
ہم پر یہ سختی کی نظر، ہم ہیں فقیرِ رہگزر
رستہ کبھی روکا تیرا؟ دامن کبھی تھاما تیرا؟
ہاں ہاں تیری صورت حسیں! لیکن تو ایسا بھی نہیں
اس شخص کے اشعار سے شہرہ ہوا کیا کیا تیرا
بے درد سننی ہو تو چل، کہتا ہے کیا اچھی غزل
عاشق تیرا، رسوا تیرا، شاعر تیرا، انشاء تیرا
Sunday, May 25, 2014
آپ ہی اپنا تماشائی ہوں
آپ ہی اپنا تماشائی ہوں
میں مبصر ہوں کہ سودائی ہوں
نہ کوئی چاند، نہ تارا، نہ امید
میں مجسم شبِ تنہائی ہوں
Saturday, May 24, 2014
کیا خزانے مری جاں ہجر کی شب یاد آئے
کیا خزانے مری جاں، ہجر کی شب یاد آئے
تیرا چہرہ، تیری آنکھیں، تیرے لب یاد آئے
Friday, May 23, 2014
تیری یادوں پہ وار دیتا ہوں
تیری یادوں پہ وار دیتا ہوں
میں رات یونہی گزار دیتا ہوں
Thursday, May 22, 2014
تُجھ کو کھو کر بھی تُجھے پاوں جہاں تک دیکھوں
تُجھ کو کھو کر بھی تُجھے پاوں جہاں تک دیکھوں
حُسنِ یزداں سے تُجھے حُسنِ بُتاں تک دیکھوں
تُو نے یوں دیکھا ہے جیسےکبھی دیکھا ہی نہ تھا
میں تو دِل میں تیرے قدموں کے نشاں تک دیکھوں
Wednesday, May 21, 2014
مجھے لمحہ بھی سال لگتا ہے
مجھے لمحہ بھی سال لگتا ہے
تم نے سالوں سے ٹال رکھا ہے
Newer Posts
Older Posts
Home
Subscribe to:
Posts (Atom)