Monday, January 2, 2017

سانس در سانس جی رہا ہوں اسے

سانس در سانس  جی رہا ہوں  اسے
وہ جو آنکھوں کی دسترس میں نہیں

Sunday, January 1, 2017

میرے رشکِ قمر تو نے پہلی نظر

میرے رشکِ قمر تو نے پہلی نظر، جب نظر سے ملائی مزہ آ گیا
برق سی گر گئی، کام ہی کر گئی، آگ ایسی لگائی مزہ آ گیا

جام میں گھول کر حسن کی مستیاں، چاندنی مسکرائی مزہ آ گیا
چاند کے سائے میں اے میرے ساقیا، تو نے ایسی پلائی مزہ آ گیا

نشہ شیشے میں انگڑائی لینے لگا، بزمِ رنداں میں ساغر کھنکنے لگے
میکدے پہ برسنے لگیں مستیاں، جب گھٹا گھر کے چھائی مزہ آ گیا


بےحجبانہ وہ سامنے آ گئے، اور جوانی جوانی سے ٹکرا گئی
آنکھ اُن کی لڑی یوں میری آنکھ سے، دیکھ کر یہ لڑائی مزہ آ گیا


آنکھ میں تھی حیاہ ہر ملاقات پر، سرخ عارض ہوئے وصل کی بات پر
اُس نے شرما کے میرے سوالات پہ، ایسے گردن جھکائی مزہ آ گیا


شیخ صاحب کا ایمان مٹ ہی گیا، دیکھ کر حسنِ ساقی پگھل ہی گیا
آج سے پہلے یہ کتنے مغرور تھے، لٹ گئی پارسائی مزہ آ گیا


اے فناؔ شکر ہے آج بعدِ فنا، اُس نے رکھلی میرے پیار کی آبرو
اپنے ہاتھوں سے اُس نے میری قبر پر، چادرِ گل چڑھائی مزہ آ گیا