Saturday, July 8, 2017

روٹھے ہو یا جوگ لیا ہے

روٹھے ہو یا جوگ لیا ہے ،کیوں ہو یوں بےزار پیا جی
پائل میری کچھ کہتی ہے ،سن تو لو اک بار پیا جی

اوس کی بوند میں دریا پالوں،میں جنموں کی پیاس بجھا لوں
سوکھ نہ جائے تن من میرا دیکھو نا اک بار پیا جی

گم صم،چپ چپ کیوں بیٹھے ہو،ساون کے اس موسم میں تم
سنگ بیٹھا کر مجھ کو اپنے ، چھیڑو نا ملہار پیا جی

کیسا جھمکا کیسا کاجل، نینا ہی جب روٹھ گئے ہوں
بھائے نہ مورے من کو اک چھن، یہ سولہ سنگار پیا جی

گھپ اندھیارا جھم جھم بارش، دور تلک پھیلا سناٹا
آنے کے دکھتے ہی نہیں کچھ، تیرے اب آثار پیا جی

سونا سونا گھر دروازہ، من مندر میں گھور اندھیارا
ایسے عالم میں جینا بھی،کتنا ہے دشوار پیا جی

بوجھ اکیلے ڈھو لیتے ہیں، چپکے چپکے رو لیتے ہیں
اونچے نیچے یہ جیون پتھ، ہوں کیسے ہموار پیا جی

تم سے تمرا اہم نہ ٹوٹا، آن پڑی مجھ پر سب بپتا
میں ہی ٹوٹی، میں ہی بکھری، جانے کتنی بار پیا جی

ہوک اٹھتی ہے رومی اکثر، میں نے آخر کیا پایا ہے
آہیں ، آنسو اور کتابیں ، ہیں میرا سنسار پیا جی

رومی ملک

Wednesday, July 5, 2017

اشعار مرے یوں تو زمانے کے لیئے ہیں

اشعار مرے یوں تو زمانے کے لیئے ہیں​
کچھ شعر فقط ان کو سنانے کے لیئے ہیں​

اب یہ بھی نہیں ٹھیک کہ ہر درد مٹا دیں​
کچھ درد کلیجے سے لگانے کے لیئے ہیں​

آنکھوں میں جو بھر لو گے تو کانٹے سے چبھیں گے​
یہ خواب تو پلکوں پہ سجانے کے لیئے ہیں​

دیکھوں ترے ہاتھوں کو تو لگتا ہے ترے ہاتھ​
مندر میں فقط دیپ جلانے کے لیئے ہیں​

یہ علم کا سودا‘ یہ رسالے‘ یہ کتابیں​
اک شخص کی یادوں کو بھلانے کے لیئے ہیں​

Monday, July 3, 2017

میں نظر سے پی رہا ہوں یہ سماں بدل نہ جائے

میں نظر سے پی رہا ہوں یہ سماں بدل نہ جائے
نہ جھکاؤ تم نگاہیں کہیں رات ڈھل نہ جائے

مرے اشک بھی ہیں اس میں یہ شراب ابل نہ جائے
مرا جام چھونے والے ترا ہاتھ جل نہ جائے

ابھی رات کچھ ہے باقی نہ اٹھا نقاب ساقی
ترا رند گرتے گرتے کہیں پھر سنبھل نہ جائے

مری زندگی کے مالک مرے دل پہ ہاتھ رکھنا
ترے آنے کی خوشی میں مرا دم نکل نہ جائے

مجھے پھونکنے سے پہلے مرا دل نکال لینا
یہ کسی کی ہے امانت مرے ساتھ جل نہ جائے

انور مرزاپوری

Saturday, July 1, 2017

تہمتِ چند اپنے ذمّے دھر چلے

تہمتِ چند اپنے ذمّے دھر چلے
کس لئے آئے تھے ہم کیا کر چلے

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

کیا ہمیں کام ان گلوں سے اے صبا
ایک دم آئے اِدھر اُدھر چلے

دوستو دیکھا تماشا یاں کا بس
تم رہو اب ہم تو اپنے گھر چلے

شمع کے مانند ہم اس بزم میں
چشمِ تر آئے تھے دامن تر چلے

آہ بس جی مت جلا تب جانیے
جب کوئی افسوں ترا اس پر چلے

ایک میں دل ‌ریش ہوں ویسا ہی دوست
زخم کتنوں کے سنا ہے بھر چلے

ہم جہاں میں آئے تھے تنہا ولے
ساتھ اپنے اب اسے لے‌کر چلے

ڈھونڈتے ہیں آپ سے اُس کو پرے
شیخ صاحب چھوڑ گھر باہر چلے

ہم نہ جانے پائے باہر آپ سے
وہ ہی آڑے آ گیا جیدھر چلے

جوں شرارِ ہستئ بے بود یاں
بارے ہم بھی اپنی باری بھر چلے

ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ
جب تلک بس چل سکے ساغر چلے

درد کچھ معلوم ہے یہ لوگ سب
کس طرف سے آئے تھے کیدھر چلے

میردرد