Saturday, September 20, 2014

محبّت زندگی بدل دیتی ہے

محبّت زندگی بدل دیتی ہے
مل جائے تو بھی نہ ملے تو بھی

Friday, September 19, 2014

ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﺐ ﭘﻠﮑﻮﮞ ﮐﻮ ﺟﻨﺒﺶ ﺩﯼ ﻋﺪﻡ

ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﺐ ﭘﻠﮑﻮﮞ ﮐﻮ ﺟﻨﺒﺶ ﺩﯼ ﻋﺪﻡ
ﺭﺍﺋﯿﮕﺎﮞ  ﺳﺐ  ﮔﻔﺘﮕﻮ  ﮐﮯ  ﻓﻦ  ﮔﺌﮯ

Thursday, September 18, 2014

سکوتِ شام میں گونجی صدا اداسی کی

سکوتِ شام میں گونجی صدا اداسی کی
کہ ہے مزید اداسی، دوا اداسی کی

امورِدل میں کسی تیسرے کا دخل نہیں
یہاں فقط تیری چلتی ہے یا اداسی کی

بہت شریر تھا میں، اور ہنستا پھرتا تھا
پھر اک فقیر نے دے دی دُعا اداسی کی

چراغِ دل کو ذرا احتیاط سے رکھنا
کہ آج رات چلے گی ہوا اداسی کی

بہت دنوں سے ملاقات ہی نہیں محسن
کہیں سے خیر خبر لے کے آ اداسی کی

Wednesday, September 17, 2014

یہ مسرت کی فضائیں تو چلی جاتی ہیں

یہ مسرت کی فضائیں تو چلی جاتی ہیں !
کل وہی رنج کے، آلام کے دھارے ہوں گے
چند لمحوں کے لیے آج گلے سے لگ جا
اتنے دن تو نے بھی ظلمت میں گزارے ہوں گے

Tuesday, September 16, 2014

یوں ہی نہیں عشق میں سرشار ہُوا مَیں

یوں ہی نہیں عشق میں سرشار ہُوا مَیں
اک رُوح مری رُوح میں تحلیل ہُوئ ہے

Monday, September 15, 2014

آج پھر درد و غم کے دھاگے میں

آج پھر درد و غم کے دھاگے میں
ہم پرو کر ترے خیال کے پھول

ترکِ الفت کے دشت سے چن کر
آشنائی کے ماہ و سال کے پھول

تیری دہلیز پر سجا آئے
پھر تری یاد پر چڑھا آئے

باندھ کر آرزو کے پلے میں
ہجر کی راکھ اور وصال کے پھول

فیض

زرا ملنے چلے آو

زرا ملنے چلے آو
مجھے کچھ تم سے کہنا ہے
ذیادہ وقت نہیں لوں گا
ذرا سی بات کرنی ہے
نہ دکھ اپنے سنانے ہیں
نہ کوی فریاد کرنی ہے
نہ یہ معلوم کرنا ہے
کہ . . . . . . . . . . . .
اب حالات کیسے ہیں ؟
تمھارے ہمسفر تھے جو
تمھارے ساتھ کیسے ہیں
نہ یہ معلوم کرنا ہے
تمھارے دن رات کیسے ہیں
مجھے بس اتنا کہنا ہے
مجھے تم یاد آتے ھو
تم یاد آتے ھو

Sunday, September 14, 2014

ﺧﺒﺮ ﺗﮭﯽ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻭﮦ ﻧﮑﻼ ﮨﮯ ﻣﯿﻨﮧ ﺑﺮﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ

ﺧﺒﺮ ﺗﮭﯽ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻭﮦ ﻧﮑﻼ ﮨﮯ ﻣﯿﻨﮧ ﺑﺮﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ
ﺗﻤﺎﻡ ﺷﮩﺮ ﻟﺌﮯ ﭼﮭﺘﺮﯾﺎﮞ ﺗﮭﺎ ﺭﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ

ﺑﮩﺎﺭ  ﺁﺋﯽ  ﺗﻮ  ﺍﮎ  ﺷﺨﺺ  ﯾﺎﺩ  ﺁﯾﺎ  ﺑﮩﺖ
ﮐﮧ ﺟﺲ ﮐﮯ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﺳﮯ ﺟﮭﮍﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﭘﮭﻮﻝ ﮨﻨﺴﺘﮯ ﻣﯿﮟ

ﮐﮩﺎﮞ ﮐﮯ ﻣﮑﺘﺐ ﻭ ﻣُﻠّﺎ، ﮐﮩﺎ ﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﺱ ﻭ ﻧﺼﺎﺏ
ﺑﺲ ﺍﮎ ﮐﺘﺎﺏِ ﻣﺤﺒﺖ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﺑﺴﺘﮯ ﻣﯿﮟ

ﻣﻼ ﺗﮭﺎ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﮔﺎﮨﮏ ﺗﻮ ﮨﻢ ﺑﮭﯽ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﺗﮯ
ﺳﻮ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺑﯿﭻ ﺩﯾﺎ ﺑﮯ ﺣﺴﺎﺏ ﺳﺴﺘﮯ ﻣﯿﮟ

ﯾﮧ ﻋﻤﺮ ﺑﮭﺮ ﮐﯽ ﻣﺴﺎﻓﺖ ﮨﮯ ﺩﻝ ﺑﮍﺍ ﺭﮐﮭﻨﺎ
ﮐﮧ ﻟﻮﮒ ﻣﻠﺘﮯ ﺑﭽﮭﮍﺗﮯ ﺭﮨﯿﮟ ﮔﮯ ﺭﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ

ﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﺩﺭ ﺧﻮﺭِ ﺭﻧﮓ ﻭ ﻧﻤﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﻭﺭﻧﮧ
ﮔﻞ ﻭ ﮔﯿﺎﮦ ﺳﺒﮭﯽ ﺗﮭﮯ ﺻﺒﺎ ﮐﮯ ﺭﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ

ﮨﮯ ﺯﮨﺮِ ﻋﺸﻖ، ﺧﻤﺎﺭِ ﺷﺮﺍﺏ ﺁﮔﮯ ﮨﮯ
ﻧﺸﮧ ﺑﮍﮬﺎﺗﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺳﺎﻧﭗ ﮈﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ

ﺟﻮ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﺭﺯﻡِ ﻭﻓﺎ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻡ ﺁﺋﮯ
ﻓﺮﺍﺯ ﮨﻢ ﺗﮭﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻋﺎﺷﻘﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ.

Saturday, September 13, 2014

ہونٹوں سے چُھو لو تم

ہونٹوں سے چُھو لو تم
میرا گیت امر کر دو
بن جاؤ میت میرے
میری پریت امر کر دو

نہ عمر کی سیما ہو
نہ جنم کا ہو بندھن
جب پیار کرئے کوئی
تو دیکھے کیول من
نئی ریت پہ چل کر تم
یہ ریت امر کر دو
ہونٹوں سے چُھو لو تم

جگ نے چھینا مجھ سے
مجھے جو بھی لگا پیارا
سب جیتا کیئے مجھ سے
میں ہر دم ہی ہارا
تم ہار کے دل اپنا
میری جیت امر کر دو
ہونٹوں سے چُھو لو تم

آکاش کا سُونا پن
میرے تنہا من میں
پائل چھنکاتی تم
آ جاؤ جیون میں
سانسیں دے کر اپنی
سنگیت امر کر دو

ہونٹوں سے چُھو لو تم
میرا گیت امر کر دو
بن جاؤ میت میرے
میری پریت امر کر دو