سکوتِ شام میں گونجی صدا اداسی کی
کہ ہے مزید اداسی، دوا اداسی کی
امورِدل میں کسی تیسرے کا دخل نہیں
یہاں فقط تیری چلتی ہے یا اداسی کی
بہت شریر تھا میں، اور ہنستا پھرتا تھا
پھر اک فقیر نے دے دی دُعا اداسی کی
چراغِ دل کو ذرا احتیاط سے رکھنا
کہ آج رات چلے گی ہوا اداسی کی
بہت دنوں سے ملاقات ہی نہیں محسن
کہیں سے خیر خبر لے کے آ اداسی کی