Tuesday, September 22, 2015

نظر نظر بیقرار سی ہے نفس نفس میں شرار سا ہے

نظر نظر بیقرار سی ہے نفس نفس میں شرار سا ہے
میں جا نتا ہوں کہ تم نہ آؤگے پھر بھی کچھ انتظار سا ہے

مرے عزیزو! میرے رفیقو! چلو کوئی داستان چھیڑو
غم زمانہ کی بات چھوڑو یہ غم تو اب سازگار سا ہے

وہی فسر دہ سا رنگ محفل وہی ترا ایک عام جلوہ
مری نگاہوں میں بار سا تھا مری نگا ہوں میں بار سا ہے

کبھی تو آؤ ! کبھی تو بیٹھو! کبھی تو دیکھو! کبھی تو پوچھو
تمہاری بستی میں ہم فقیروں کا حال کیوں سوگوار سا ہے

چلو کہ جشن بہار دیکھیں چلو کہ ظرف بہار جا نچیں
چمن چمن روشنی ہوئی ہے کلی کلی پہ نکھار سا ہے

یہ زلف بر دوش کون آیا یہ کس کی آہٹ سے گل کھلے ہیں
مہک رہی ہے فضائے ہستی تمام عالم بہار سا ہے

ساغر صدیقی

Sunday, September 6, 2015

کسی نظر کو تیرا انتظار آج بھی ہے




کسی نظر کو تیرا انتظار آج بھی ہے
کہاں ہو تم کہ یہ دل بےقرار آج بھی ہے

وہ پیار جس کے لیئے ہم نے چھوڑ دی دنیا
وفا کی راہ میں گھاءل وہ پیار آج بھی ہے
ناجانے دیکھ کے کیوں ان کو یہ ہوا احساس
میرے دل پہ اختیار انہیں آج بھی ہے

Saturday, September 5, 2015

میری آنکھوں کو سُوجھتا ہی نہیں

میری آنکھوں کو سُوجھتا ہی نہیں
یا مقدر میں راستہ ہی نہیں

وہ بھرے شہر میں کسی سے بھی
میرے بارے میں پوچھتا ہی نہیں

پھر وہی شام ہے وہی ہم ہیں
ہاں مگر دل میں حوصلہ ہی نہیں


ہم چلے اُس کی بزم سے اُٹھ کر
اور وہ ہے کہ روکتا ہی نہیں


دل جو اک دوست تھا مگر وہ بھی
چپ کا پتھر ہے بولتا ہی نہیں


میں تو اُس کی تلاش میں گُم ہوں
وہ کبھی مجھ کو ڈھونڈتا ہی نہیں

Wednesday, September 2, 2015

مجھ کو کافی ہے زندگی کے لئے

 مجھ کو کافی ہے زندگی کے لئے
تو جو مل جائے دو گھڑی کے لئے

Tuesday, September 1, 2015

وہ ہاتھ پرائے ہو بھی چکے

وہ ہاتھ پرائے ہو بھی چکے
اب دُورکا رشتہ ہے قیصر۔

آتی ہےمیری تنہائی میں
 خوشبوِحناء دھیرے دھیرے