Friday, December 12, 2014

چلتے چلتے تھک کر پوچھا پاﺅں کے چھالوں نے

چلتے چلتے تھک کر پوچھا پاﺅں کے چھالوں نے
بستی  کتنی دور بسا لی  دل میں بسنے والوں نے

Thursday, December 11, 2014

ﺗُﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﮨﯿﮟ ﺷﮑﺎﯾﺘﯿﮟ

ﺗُﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﮨﯿﮟ ﺷﮑﺎﯾﺘﯿﮟ
ﮐﺒﮭﯽ ﺳُﻦ ﻟﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺣﮑﺎﯾﺘﯿﮟ۔

ﺗُﺠﮭﮯ ﮔﺮ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﻼﻝ ﮬﻮ
ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﺗُﺠﮫ ﺳﮯ ﮔﻠﮧ ﮐﺮﻭﮞ؟

ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐُﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﺟﻮﺍﺏ ﺍﺏ
ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺗﯿﺮﮮ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺎ۔

ﺗُﻮ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ ﮐﯿﺴﮯ ﯾﻘﯿﮟ ﻣﯿﺮﺍ
ﻣُﺠﮭﮯ ﺗﻮ ﺑﺘﺎ ﺩﮮ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﻭﮞ؟

ﯾﮧ ﺟﻮ ﺑﮭﻮﻟﻨﮯ ﮐﺎ ﺳﻮﺍﻝ ﮬﮯ
ﻣﯿﺮﯼ ﺟﺎﻥ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﮐﻤﺎﻝ ﮬﮯ۔

ﺗُﻮ ﻧﻤﺎﺯِ ﻋﺸﻖ ﮬﮯ ﺟﺎﻥِ ﺟﺎﮞ
ﺗُﺠﮭﮯ ﺭﺍﺕ ﻭ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﻭﮞ۔

ﺗﯿﺮﺍ ﭘﯿﺎﺭ ﺗﯿﺮﯼ ﻣﺤﺒﺘﯿﮟ
ﻣﯿﺮﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﻋﺒﺎﺩﺗﯿﮟ۔

ﺟﻮ ﮬﻮ ﺟﺴﻢ ﻭ ﺟﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺍﮞ ﺩﻭﺍﮞ
 ﺍُﺳﮯ ﮐﯿﺴﮯ ﺧﻮﺩ ﺳﮯ ﺟُﺪﺍ ﮐﺮﻭﮞ؟

ﺗُﻮ ﮬﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ، ﺗُﻮ ﮬﯽ ﻧﻈﺮ ﻣﯿﮟ ﮬﮯ
ﺗُﻮ ﮬﮯ ﺷﺎﻡ ﺗُﻮ ﮬﯽ ﺳﺤﺮ ﻣﯿﮟ ﮬﮯ۔

ﺟﻮ ﻧﺠﺎﺕ ﭼﺎﮬﻮﮞ ﺣﯿﺎﺕ ﺳﮯ
ﺗُﺠﮭﮯ ﺑﮭﻮﻟﻨﮯ ﮐﯽ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﻭﮞ۔

Wednesday, December 10, 2014

یا رب ! غمِ ہجراں میں اِتنا تو کیا ہوتا

یا رب ! غمِ ہجراں میں اِتنا تو کیا ہوتا
جو ہاتھ جگر پہ ہے، وہ دست دُعا ہوتا

اِک عشق کا غم آفت، اور اُس پہ یہ دل آفت
یا  غم  نہ  دِیا  ہوتا،  یا  دل  نہ  دِیا  ہوتا

Tuesday, December 9, 2014

تم گُزرو اور وقت نہ ٹھہرے

تم گُزرو اور وقت نہ ٹھہرے، ایسا تھوڑا ھو سکتا ھے
یاد آؤ اور درد نہ بَھڑکے، ایسا تھوڑا ھو سکتا ھے


صبر کِیا ھے، شُکر کِیا ھے، راضی ھو کر دیکھ لیا ھے
لیکن دل کو چین آ جائے، ایسا تھوڑا ھو سکتا ھے

تَرکِ محبّت کر لینے سے تَرکِ محبّت ھو بھی جائے
کوئی اُسے جا کر سمجھائے، ایسا تھوڑا ھو سکتا ھے

جب تم نے سب راز کی باتیں، گوشِ موجِ ھَوا سے کہہ دِیں
شاخ و شجر تک بات نہ پہنچے، ایسا تھوڑا ھو سکتا ھے

گُذرا لمحہ گُزر گیا ھے، اُس پر اَشک بہانا کیسا
مُٹھی میں پانی آ جائے، ایسا تھوڑا ھو سکتا ھے

پہلے جیسا نہیں ھے کُچھ بھی، اِس پہ تعجب کرنا کیسا
دھوُپ ڈھلے اور رنگ نہ بدلے، ایسا تھوڑا ھو سکتا ھے

Monday, December 8, 2014

سلجھا ہوا سا شخص مجھے سمجھتے ہیں لوگ

سلجھا ہوا سا شخص مجھے سمجھتے ہیں لوگ
الجھا ہوا سا مجھ میں کوئی دوسرا بھی ہے ...!

Thursday, October 16, 2014

لا حاصل ہی سہی مگر

لا حاصل  ہی سہی مگر
محبت تجھ سے ہی ہے

Wednesday, October 15, 2014

جس کے ملنے کی اب نہیں اُمید

جس کے ملنے کی اب نہیں اُمید
اس کا ارمان خوبصورت ہے

ساتھ دیتا ہے وحشتِ دل کا
چاکِ دامان خوبصورت ہے

Tuesday, October 14, 2014

عشق ھو وقت ھو

عشق ھو وقت ھو کاغذ ھو قلم ھو
تیری ذات ہو  تیرا نام ہو  اور بس

Thursday, October 9, 2014

وقت خوش خوش

وقت خوش خوش کاٹنے کا مشورہ دیتے ھوئے
رو پڑا وہ آپ ، مجھ کو حوصلہ دیتے ھوئے

Wednesday, October 8, 2014

تہوار کہاں سوگ منایا عید کے دن

تہوار کہاں سوگ منایا عید کے دن
تری یاد نے بہت ستایا عید کے دن
 
شغل دنیا ھے رسم بغل گیری مگر تم نے
دستور زمانہ بھی  نہ نبھایا عید کے دن

 
 اشک لیے کہاں پھرنا بھلا اجنبی لوگوں میں
آنکھوں نے یہ کیسا کفر ڈھایا عید کے دن
 
 نت نئی پوشاکوں نے مرے بچوں کو
اپنی محرومیوں کا احساس دلایا عید کے دن
 
 بے کار ھوئی خالد ھر تدبیر ضبط کی
خیال یار نے بہت رلایا عید کے دن

اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا

اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
رنج راحت فزا نہیں ہوتا
تُم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا

Saturday, September 20, 2014

محبّت زندگی بدل دیتی ہے

محبّت زندگی بدل دیتی ہے
مل جائے تو بھی نہ ملے تو بھی

Friday, September 19, 2014

ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﺐ ﭘﻠﮑﻮﮞ ﮐﻮ ﺟﻨﺒﺶ ﺩﯼ ﻋﺪﻡ

ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﺐ ﭘﻠﮑﻮﮞ ﮐﻮ ﺟﻨﺒﺶ ﺩﯼ ﻋﺪﻡ
ﺭﺍﺋﯿﮕﺎﮞ  ﺳﺐ  ﮔﻔﺘﮕﻮ  ﮐﮯ  ﻓﻦ  ﮔﺌﮯ

Thursday, September 18, 2014

سکوتِ شام میں گونجی صدا اداسی کی

سکوتِ شام میں گونجی صدا اداسی کی
کہ ہے مزید اداسی، دوا اداسی کی

امورِدل میں کسی تیسرے کا دخل نہیں
یہاں فقط تیری چلتی ہے یا اداسی کی

بہت شریر تھا میں، اور ہنستا پھرتا تھا
پھر اک فقیر نے دے دی دُعا اداسی کی

چراغِ دل کو ذرا احتیاط سے رکھنا
کہ آج رات چلے گی ہوا اداسی کی

بہت دنوں سے ملاقات ہی نہیں محسن
کہیں سے خیر خبر لے کے آ اداسی کی

Wednesday, September 17, 2014

یہ مسرت کی فضائیں تو چلی جاتی ہیں

یہ مسرت کی فضائیں تو چلی جاتی ہیں !
کل وہی رنج کے، آلام کے دھارے ہوں گے
چند لمحوں کے لیے آج گلے سے لگ جا
اتنے دن تو نے بھی ظلمت میں گزارے ہوں گے

Tuesday, September 16, 2014

یوں ہی نہیں عشق میں سرشار ہُوا مَیں

یوں ہی نہیں عشق میں سرشار ہُوا مَیں
اک رُوح مری رُوح میں تحلیل ہُوئ ہے

Monday, September 15, 2014

آج پھر درد و غم کے دھاگے میں

آج پھر درد و غم کے دھاگے میں
ہم پرو کر ترے خیال کے پھول

ترکِ الفت کے دشت سے چن کر
آشنائی کے ماہ و سال کے پھول

تیری دہلیز پر سجا آئے
پھر تری یاد پر چڑھا آئے

باندھ کر آرزو کے پلے میں
ہجر کی راکھ اور وصال کے پھول

فیض

زرا ملنے چلے آو

زرا ملنے چلے آو
مجھے کچھ تم سے کہنا ہے
ذیادہ وقت نہیں لوں گا
ذرا سی بات کرنی ہے
نہ دکھ اپنے سنانے ہیں
نہ کوی فریاد کرنی ہے
نہ یہ معلوم کرنا ہے
کہ . . . . . . . . . . . .
اب حالات کیسے ہیں ؟
تمھارے ہمسفر تھے جو
تمھارے ساتھ کیسے ہیں
نہ یہ معلوم کرنا ہے
تمھارے دن رات کیسے ہیں
مجھے بس اتنا کہنا ہے
مجھے تم یاد آتے ھو
تم یاد آتے ھو

Sunday, September 14, 2014

ﺧﺒﺮ ﺗﮭﯽ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻭﮦ ﻧﮑﻼ ﮨﮯ ﻣﯿﻨﮧ ﺑﺮﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ

ﺧﺒﺮ ﺗﮭﯽ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻭﮦ ﻧﮑﻼ ﮨﮯ ﻣﯿﻨﮧ ﺑﺮﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ
ﺗﻤﺎﻡ ﺷﮩﺮ ﻟﺌﮯ ﭼﮭﺘﺮﯾﺎﮞ ﺗﮭﺎ ﺭﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ

ﺑﮩﺎﺭ  ﺁﺋﯽ  ﺗﻮ  ﺍﮎ  ﺷﺨﺺ  ﯾﺎﺩ  ﺁﯾﺎ  ﺑﮩﺖ
ﮐﮧ ﺟﺲ ﮐﮯ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﺳﮯ ﺟﮭﮍﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﭘﮭﻮﻝ ﮨﻨﺴﺘﮯ ﻣﯿﮟ

ﮐﮩﺎﮞ ﮐﮯ ﻣﮑﺘﺐ ﻭ ﻣُﻠّﺎ، ﮐﮩﺎ ﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﺱ ﻭ ﻧﺼﺎﺏ
ﺑﺲ ﺍﮎ ﮐﺘﺎﺏِ ﻣﺤﺒﺖ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﺑﺴﺘﮯ ﻣﯿﮟ

ﻣﻼ ﺗﮭﺎ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﮔﺎﮨﮏ ﺗﻮ ﮨﻢ ﺑﮭﯽ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﺗﮯ
ﺳﻮ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺑﯿﭻ ﺩﯾﺎ ﺑﮯ ﺣﺴﺎﺏ ﺳﺴﺘﮯ ﻣﯿﮟ

ﯾﮧ ﻋﻤﺮ ﺑﮭﺮ ﮐﯽ ﻣﺴﺎﻓﺖ ﮨﮯ ﺩﻝ ﺑﮍﺍ ﺭﮐﮭﻨﺎ
ﮐﮧ ﻟﻮﮒ ﻣﻠﺘﮯ ﺑﭽﮭﮍﺗﮯ ﺭﮨﯿﮟ ﮔﮯ ﺭﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ

ﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﺩﺭ ﺧﻮﺭِ ﺭﻧﮓ ﻭ ﻧﻤﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﻭﺭﻧﮧ
ﮔﻞ ﻭ ﮔﯿﺎﮦ ﺳﺒﮭﯽ ﺗﮭﮯ ﺻﺒﺎ ﮐﮯ ﺭﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ

ﮨﮯ ﺯﮨﺮِ ﻋﺸﻖ، ﺧﻤﺎﺭِ ﺷﺮﺍﺏ ﺁﮔﮯ ﮨﮯ
ﻧﺸﮧ ﺑﮍﮬﺎﺗﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺳﺎﻧﭗ ﮈﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ

ﺟﻮ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﺭﺯﻡِ ﻭﻓﺎ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻡ ﺁﺋﮯ
ﻓﺮﺍﺯ ﮨﻢ ﺗﮭﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻋﺎﺷﻘﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ.

Saturday, September 13, 2014

ہونٹوں سے چُھو لو تم

ہونٹوں سے چُھو لو تم
میرا گیت امر کر دو
بن جاؤ میت میرے
میری پریت امر کر دو

نہ عمر کی سیما ہو
نہ جنم کا ہو بندھن
جب پیار کرئے کوئی
تو دیکھے کیول من
نئی ریت پہ چل کر تم
یہ ریت امر کر دو
ہونٹوں سے چُھو لو تم

جگ نے چھینا مجھ سے
مجھے جو بھی لگا پیارا
سب جیتا کیئے مجھ سے
میں ہر دم ہی ہارا
تم ہار کے دل اپنا
میری جیت امر کر دو
ہونٹوں سے چُھو لو تم

آکاش کا سُونا پن
میرے تنہا من میں
پائل چھنکاتی تم
آ جاؤ جیون میں
سانسیں دے کر اپنی
سنگیت امر کر دو

ہونٹوں سے چُھو لو تم
میرا گیت امر کر دو
بن جاؤ میت میرے
میری پریت امر کر دو

Friday, June 20, 2014

غیروں سے کہا تم نے

غیروں سے کہا تم نے، غیروں سے سنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا، کچھ ہم سے سنا ہوتا
امید تو بندھ جاتی، تسکین تو ہو جاتی
وعدہ نہ وفا کرتے، وعدہ تو کیا ہوتا

Friday, June 6, 2014

تم میرے پاس ہوتے ھو گویا

تم میرے پاس ہوتے ھو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ھوتا

Thursday, June 5, 2014

ہر چیز حد میں اچھی لگتی ہے

ہر چیز حد میں اچھی لگتی ہے
مگر تو بے حد اچھی لگتی ہے

Wednesday, June 4, 2014

ﮐﺒﮭﯽ ﻧﺎﺭﺍﺽ ﻣﺖ ﮨﻮﻧﺎ

ﮐﺒﮭﯽ ﻧﺎﺭﺍﺽ ﻣﺖ ﮨﻮﻧﺎ
ﮔﻠﮯ ﭼﺎﮨﮯ ﺑﮩﺖ ﮐﺮﻧﺎ
ﺭﻻﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﻟﮍﻧﺎ
ﺳﻨﻮ ﻧﺎﺭﺍﺽ ﻣﺖ ﮨﻮﻧﺎ

ﮐﺒﮭﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﺟﻮ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ
ﮐﮧ ﺗﯿﺮﯼ ﯾﺎﺩ ﺳﮯ ﻏﺎﻓﻞ
ﮐﺴﯽ ﻟﻤﺤﮯ ﺟﻮ ﮨﻮ ﺟﺎﺅﮞ
ﺑﻨﺎ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﺗﯿﺮﯼ ﺻﻮﺭﺕ
ﮐﺴﯽ ﺷﺐ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺳﻮ ﺟﺎﺅﮞ
ﺗﻮ ﺳﭙﻨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﮯ ﺁﻧﺎ
ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﺩِﻻ ﺟﺎﻧﺎ
ﺳﻨﻮ ﻧﺎﺭﺍﺽ ﻣﺖ ﮨﻮﻧﺎ

ﮐﺒﮭﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﺟﻮ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ
ﺟﻨﮩﯿﮟ ﮐﮩﻨﺎ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﻮ
ﻭﮦ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻟﻔﻆ ﮐﮭﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ
ﺍﻧﺎ ﮐﻮ ﺑﯿﭻ ﻣﺖ ﻻﻧﺎ
ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻭﺍﺯ ﺑﻦ ﺟﺎﻧﺎ
ﮐﺒﮭﯽ ﻧﺎﺭﺍﺽ ﻣﺖ ﮨﻮﻧﺎ

Tuesday, June 3, 2014

ﺗﻔﺼﯿﻼً ﭼﮭﻮﮌﻭ ﺑﺲ ﺍﺗﻨﺎ ﺳﻨﻮ

ﺗﻔﺼﯿﻼً ﭼﮭﻮﮌﻭ، ﺑﺲ ﺍﺗﻨﺎ ﺳﻨﻮ
 ﺗﻢ ﺑﭽﮭﮍ ﮔﺌﮯ، ﮨﻢ ﺑﮑﮭﺮ ﮔﺌﮯ

Monday, June 2, 2014

جی چاہے تو شیشہ بن جا جی چاہے پیمانہ بن جا

جی چاہے تو شیشہ بن جا، جی چاہے پیمانہ بن جا
شیشہ پیمانہ کیا بننا، مے بن جا، مےخانہ بن جا

مے بن کر، مےخانہ بن کر، مستی کا افسانہ بن جا
مستی کا افسانہ بن کر، ہستی سے بیگانہ بن جا

ہستی سے بیگانہ ہونا، مستی کا افسانہ بننا
اس ہونے سے، اس بننے سے، اچھا ہے دیوانہ بن جا


دیوانہ بن جانے سے بھی، دیوانہ ہونا اچھا ہے
دیوانہ ہونے سے اچھا، خاکِ درِ جاناناں بن جا


خاکِ درِ جاناناں کیا ہے، اہلِ دل کی آنکھ کا سُرمہ
شمع کے دل کی ٹھنڈک بن جا، نُورِ دلِ پروانہ بن جا


سیکھ ذہین کے دل سے جلنا، کاہے کو ہر شمع پہ جلنا
اپنی آگ میں خود جل جائے، تو ایسا پروانہ بن جا

Sunday, June 1, 2014

میں تجھ سے کیسے کہوں مہرباں میرے

میں تجھ سے کیسے کہوں مہرباں میرے
کہ تو علاج ہے میری ہر اک اداسی کا

Saturday, May 31, 2014

جانے وہ کیسے لوگ تھے

جانے وہ کیسے لوگ تھے
جن کے پیار کو پیار ملا

Friday, May 30, 2014

وہ ہمیں چھوڑ کے اک شام گئے تھے ناصر

وہ ہمیں چھوڑ کے اک شام گئے تھے ناصر
زندگی اپنی اسی شام سے آگے نہ بڑھی

Thursday, May 29, 2014

تیری یادوں سے سجے ہیں رات دن میرے

تیری یادوں سے سجے ہیں رات دن میرے
تجھے اگر بھولا تو ویراں ہو جائے گا احمر

Wednesday, May 28, 2014

یاد آیا تھا بچھڑنا تیرا

یاد آیا تھا بچھڑنا تیرا
پھر نہیں‌ یاد کہ کیا یاد آیا
یہ مُحبّت بھی ہـے کیا روگــــ فرازؔ
جس کو بُھولـے وہ سدا یاد آیا

Tuesday, May 27, 2014

دل جو تھا اک آبلہ پھوٹا گیا

دل جو تھا اک آبلہ پھوٹا گیا
رات کو سینہ بہت کوٹا گیا
دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا

Monday, May 26, 2014

کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا تیرا

کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا تیرا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرہ تیرا

ہم بھی وہیں موجود تھے، ہم سے بھی سب پوچھا کیے
ہم ہنس دیئے، ہم چپ رہے، منظور تھا پردہ تیرا

اس شہر میں کس سے ملیں، ہم سے تو چھوٹیں محفلیں
ہر شخص تیرا نام لے، ہر شخص ہے دیوانہ تیرا

کوچے کو تیرے چھوڈ کر، جوگی ہی بن جائیں مگر
جنگل تیرے، پربت تیرے، بستی تیری، صحرا تیرا

ہم اور رسمِ بندگی ، آشفتگی ، اوفتگی
احسان ہے کیا کیا تیرا، اے حسن بے پروا تیرا

دو اشک جانے کس لئے، پلکوں پہ آکے ٹک گیے
الطاف کی بارش تیری، اکرام کا دریا تیرا

اے بے دریغ و بے ایماں! ہم نے کبھی کی ہے فغاں؟
ہم کو تیری وحشت سہی، ہم کو سہی سواد تیرا

ہم پر یہ سختی کی نظر، ہم ہیں فقیرِ رہگزر
رستہ کبھی روکا تیرا؟ دامن کبھی تھاما تیرا؟

ہاں ہاں تیری صورت حسیں! لیکن تو ایسا بھی نہیں
اس شخص کے اشعار سے شہرہ ہوا کیا کیا تیرا

بے درد سننی ہو تو چل، کہتا ہے کیا اچھی غزل
عاشق تیرا، رسوا تیرا، شاعر تیرا، انشاء تیرا

Sunday, May 25, 2014

آپ ہی اپنا تماشائی ہوں

آپ ہی اپنا تماشائی ہوں
میں مبصر ہوں کہ سودائی ہوں
نہ کوئی چاند، نہ تارا، نہ امید
میں مجسم شبِ تنہائی ہوں

Saturday, May 24, 2014

کیا خزانے مری جاں ہجر کی شب یاد آئے

کیا خزانے مری جاں، ہجر کی شب یاد آئے
تیرا چہرہ، تیری آنکھیں، تیرے لب یاد آئے

Friday, May 23, 2014

تیری یادوں پہ وار دیتا ہوں

تیری یادوں پہ وار دیتا ہوں
میں رات یونہی گزار دیتا ہوں

Thursday, May 22, 2014

تُجھ کو کھو کر بھی تُجھے پاوں جہاں تک دیکھوں

تُجھ کو کھو کر بھی تُجھے پاوں جہاں تک دیکھوں
حُسنِ یزداں سے تُجھے حُسنِ بُتاں تک دیکھوں

تُو نے یوں دیکھا ہے جیسےکبھی دیکھا ہی نہ تھا
میں تو دِل میں تیرے قدموں کے نشاں تک دیکھوں

Wednesday, May 21, 2014

مجھے لمحہ بھی سال لگتا ہے

مجھے لمحہ بھی سال لگتا ہے
تم نے سالوں سے ٹال رکھا ہے

Friday, March 21, 2014

خاموش لہجے مرے ھمدم کبھی بولا نہیں کرتے

خاموش لہجے مرے ھمدم
کبھی بولا نہیں کرتے

ھم اپنے دل کی باتوں کو
کبھی کھولا نہیں کرتے

مرے خاموش رہنے پر
کوئی الزام مت دینا

سمندر تو سمندر ھیں
کبھی بولا نہیں کرتے

Thursday, March 20, 2014

سکوں لُوٹ کر پھر ستانے لگے ہیں

سکوں لُوٹ کر پھر ستانے لگے ہیں
نہ جانے وہ کیوں یاد آنے لگے ہیں
ہیں مخمور آنکھوں پہ زلفوں کے سائے
سرِ مے کدہ ابر چھانے لگے ہیں
ذرا صبر، اے غنچۂ ناشگفتہ
کہ وہ خیر سے مسکرانے لگے ہیں
رہی عمر بھر جن کی تصویر دل میں
تصور میں آ کر ستانے لگے ہیں
قضا نے بھی پایا نہ ان کا ٹھکانہ
تِرے ہاتھ سے جو ٹھکانے لگے ہیں
نہ جانے وہ اک لمحۂ قُرب کیا ہے
تعاقب میں جس کے زمانے لگے ہیں
بہت بے سکوں ہے نصیرؔ آج کوئی
ترِے اشک بھی رنگ لانے لگے ہیں

Wednesday, March 19, 2014

یہ یاد نہیں کب پیار ہوا

یہ یاد نہیں کب پیار ہوا
بس یاد رہا مجھے پیار ہوا
جب پیار ہوا سب بھول گیا
اک یاد رہا بس نام تیرا
ہم مسجد مندر سب بھول گئے
مجھے یاد رہا بس نام تیرا
کچھ سالوں بعد وہ ہم سے ملے
میں پوچھ بیٹھا کیا حال تیرا
وہ ہنس ک بولے ... اے پاگل
تو یہ تو بتا کیا نام تیرا

Tuesday, March 18, 2014

عمر کتنی منزلیں طے کر چکی

عمر کتنی منزلیں طے کر چکی،
دل جہاں ٹھہرا تھا ٹھہرا رہ گیا

Monday, March 17, 2014

چاند نکلے کسی جانب تری زیبائی کا

چاند نکلے کسی جانب تری زیبائی کا
رنگ بدلے کسی صورت شبِ تنہائی کا

دولتِ لب سے پھر اے خسروِ شیریں دہناں
آج ارزاں ہو کوئی حرف شناسائی کا


گرمیِ رشک سے ہر انجمنِ گُل بدناں
تذکرہ چھیڑے تری پیرہن آرائی کا

صحنِ گلشن میں کبھی اے شہِ شمشاد قداں
پھر نظر آئے سلیقہ تری رعنائی کا

ایک بار اور مسیحائے دلِ دل زدگاں
کوئی وعدہ، کوئی اقرار مسیحائی کا

دیدہ و دل کو سنبھالو کہ سرِ شامِ فراق
ساز و سامان بہم پہنچا ہے رسوائی کا۔۔۔!!


فیض احمد فیض

Sunday, March 16, 2014

یہ بھی ہو سکتا ھے ھم یاد نہ کرتے ھوں تُمھیں

یہ بھی ہو سکتا ھے ھم یاد نہ کرتے ھوں تُمھیں
یہ بھی ممکن ھے تُمھیں ھم نے بُھلایا ہی نہ ھو

Saturday, March 15, 2014

ہم تیرے ہیں یہ راز تو تم جان گئے ہو

ہم تیرے ہیں یہ راز تو تم جان گئے ہو
تم کس کے ہو یہ درد ہمیں سونے نہیں دیتا

Friday, March 14, 2014

میری پسند تیری یاد

میری پسند تیری یاد، میری شاعری تیری یاد
میرے شعر
، میرا سخن، بس تو اور تیری یاد
 
احمرجعفری

Thursday, March 13, 2014

رہزن ہے میرا رہـــــــبر منصـــــف ہے میرا قاتل

رہزن ہے میرا رہـــــــبر، منصـــــف ہے میرا قاتل
کہہ دوں تو بغاوت ہے، سہہ لوں تو قیامت ہے

Wednesday, March 12, 2014

بچھڑ گیا ہر ساتھی دے کر پل دو پل کا ساتھ

بچھڑ گیا ہر ساتھی   دے کر پل دو پل کا ساتھ
کس کو فرصت ہـے جو تھامـے دیوانوں کا ہاتھ

Tuesday, March 11, 2014

ساتھ لمحوں کا یاد برسوں کی

ساتھ لمحوں کا ... یاد برسوں کی
میرے دوست کی یہی بات بری ہے

Monday, March 10, 2014

ﺍﯾﮏ ﺭﺳﻢ دنیا ﮨﮯ ﺩﺍﺩِ ﺳﺨﻦ ﻭﺭﻧﮧ

ﺍﯾﮏ ﺭﺳﻢ دنیا ﮨﮯ ﺩﺍﺩِ ﺳﺨﻦ ﻭﺭﻧﮧ
سمجھا کسی کسی نے میرے سخن کو


احمرجعفری

Sunday, March 9, 2014

ساری دنیا غریب ہو جاتی

ساری دنیا غریب ہو جاتی
تم اگر مجھ کو مل گئے ہوتے

Saturday, March 8, 2014

ﻏﯿﺮ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﮔﺮ ﺍﺗﺮﻧﺎ ہی ﺗﮭﺎ

ﻏﯿﺮ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﮔﺮ ﺍﺗﺮﻧﺎ ہی ﺗﮭﺎ
احمر کے ﺩﻝ ﺳﮯ ﺍﺗﺮ ﮔﺌﮯ ﮨﻮﺗﮯ

ﺗﻢ ﭘﻮﭼﮭﻮ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﺑﺘﺎﺅﮞ ﺍﯾﺴﮯ ﺗﻮ ﺣﺎﻻﺕ ﻧﮩﯿﮟ

ﺗﻢ ﭘﻮﭼﮭﻮ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﺑﺘﺎﺅﮞ، ﺍﯾﺴﮯ ﺗﻮ ﺣﺎﻻﺕ ﻧﮩﯿﮟ
ﺍﯾﮏ ﺫﺭﺍ ﺳﺎ ﺩﻝ ﭨُﻮﭨﺎ ﮨﮯ، ﺍﻭﺭ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ

ﮐﺲ ﮐﻮ ﺧﺒﺮ ﺗﮭﯽ ﺳﺎﻧﻮﻟﮯ ﺑﺎﺩﻝ ﺑِﻦ ﺑﺮﺳﮯ ﺍُﮌ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺳﺎﻭﻥ ﺁﯾﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﺍﭘﻨﯽ ﻗﺴﻤﺖ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﺳﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ

ﭨُﻮﭦ ﮔﯿﺎ ﺟﺐ ﺩﻝ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﯾﮧ ﺳﺎﻧﺲ ﮐﺎ ﻧﻐﻤﮧ ﮐﯿﺎ ﻣﻌﻨﯽ
ﮔﻮﻧﺞ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﺷﮩﻨﺎﺋﯽ، ﺟﺐ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺭﺍﺕ ﻧﮩﯿﮟ

ﻏﻢ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﮬﯿﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺗﺠﮫ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﮐﯿﻮﮞ ﺳﻤﺠﮭﻮﮞ
ﺗُﻮ ﭘﺮ ﺗُﻮ ﮨﮯ، ﻣﯿﺮﺍ ﺗﻮ ﺳﺎﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﮩﯿﮟ

ﻣﺎﻧﺎ ﺟﯿﻮﻥ ﻣﯿﮟ ﻋﻮﺭﺕ ﺍِﮎ ﺑﺎﺭ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ
ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺗﻮ ﺑﺘﺎ ﺩﮮ ﮐﯿﺎ ﺗُﻮ ﻋﻮﺭﺕ ﺫﺍﺕ ﻧﮩﯿﮟ

ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺍ ﻣﯿﺮﺍ ﺍﻓﺴﺎﻧﮧ، ﺍﺏ ﯾﮧ ﺁﻧﺴﻮ ﭘﻮﻧﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻟﻮ
ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﺎﺭﺍ ﭼﻤﮑﮯ ﺁﺝ ﮐﯽ ﺭﺍﺕ ﻭﮦ ﺭﺍﺕ ﻧﮩﯿﮟ

ﻣﯿﺮﮮ ﻏﻤﮕﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﭘﺮ ﺍﺣﺒﺎﺏ ﮨﯿﮟ ﯾﻮﮞ ﺣﯿﺮﺍﮞ ﻗﺘﯿﻞ
ﺟﯿﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﺘﮭﺮ ﮨﻮﮞ، ﻣﯿﺮﮮ ﺳﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﺬﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ

احمر جب وہ تیرا نہیں تو کسی کا بھی ہو

احمر جب وہ تیرا نہیں تو کسی کا بھی ہو
کیوں ہوتا ہے اس کے لیے رنجیدہ تو

خواہشوں کو اپنی دفنا دے یادوں کو بھلا دے
وہ تیرا نہیں اسے اپنے خیالوں سے مٹا دے

Saturday, February 22, 2014

جو خیال تھے نہ قیاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے

جو خیال تھے نہ قیاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
جو محبتوں کے اساس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے

جنہیں مانتا ہی نہیں یہ دل، وہی لوگ میرے ہیں ہمسفر
مجھے ہر طرح سے جو راس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے

مجھے لمحہ بھر کی رفاقتوں کے سراب اور ستائیں گے
میری عمر بھر کی جو پیاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے

یہ خیال سارے ہیں عارضی،یہ گلاب سارے ہیں کاغذی
گلِ آرزو کی جو باس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھر گئے

جنہیں کر سکا نہ قبول میں،وہ شریک راہِ سفر ہوئے
جو مری طلب مِری آس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے

مری دھڑکنوں کے قریب تھے ،مری چاہ تھے ،مرا خواب تھے
جو روز و شب مرے پاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے

Wednesday, February 19, 2014

گزر رہے ہیں شب و روز تم نہیں آتیں

گزر رہے ہیں شب و روز تم نہیں آتیں
ریاضِ زیست ہے آزردۂ بہار ابھی
مرے خیال کی دنیا ہے سوگوار ابھی
جو حسرتیں ترے غم کی کفیل ہیں پیاری
ابھی تلک مری تنہائیوں میں بستی ہیں
طویل راتیں ابھی تک طویل ہیں پیاری
اداس آنکھیں تری دید کو ترستی ہیں

بہارِ حسن ، پہ پابندیِ جفا کب تک؟
یہ آزمائشِ صبرِ گریز پا کب تک؟

قسم تمہاری بہت غم اٹھا چکا ہوں میں
غلط تھا دعویِ صبر و شکیب، آجاؤ
قرارِ خاطرِ بیتاب، تھک گیا ہوں میں

فیض احمد فیض

Tuesday, February 18, 2014

ہم سوختہ جانوں کی خاطر آرائش عارض و لب ہی سہی

ہم سوختہ جانوں کی خاطر آرائش عارض و لب ہی سہی
جو برسوں تم کر نہ سکے وہ قتل کے ساماں اب ہی سہی


اے بادہ ناب کے رکھوالے،دو گھونٹ ادھر بھی پہنچا دے
معیارِ کرم اس محفل کا پیمانہ نام و نسب ہی سہی

جو کچھ بھی کوئی کہتا ہے کہے، اظہارِ تمنا تو ہو گا
ہم اہل جنوں کی باتوں میں کچھ پہلو ئے سوئے ادب ہی سہی

موجود ہیں پنچھی گلشن میں پھر کیوں ہے سکوت مرگ یہاں
پر شور ترانوں کے بدلے اک نغمہ زیر لب ہی سہی

اپنے پہ بھروسہ ہے جن کو، نغماتِ سحر بھی سن لیں گے
کرنوں کی دمکتی آہٹ تک نقارۃ آخر شب ہی سہی


آلودہ زُباں ہو جائے گی، انصاف کی میٹھی بولی ہے
تم اپنی روش کو مت بدلو، ہم مورد قہر و غضب ہی سہی

دیکھا ہے قتیل آخر سب نے اس شوخ کو بھی مائل بہ کرم
اس کارِ نُمایاں کے پیچھے گستاخی دستِ طلب ہی سہی

Monday, February 17, 2014

کہاں سے چل کے اے ساقی کہاں تک بات پہنچی ہے


کہاں سے چل کے اے ساقی کہاں تک بات پہنچی ہے
تری آنکھوں سے عمرِ جاوداں تک بات پہنچی ہے

مبادا بات بڑھ کر باعثِ تکلیف ہو جائے
وہیں پر ختم کر دیجے جہاں تک بات پہنچی ہے

ابھی تو اس کی آنکھوں نے لیا ہے جائزہ دل کا
ابھی تو ابتدائے داستاں تک بات پہنچی ہے

عدم جھگڑا قیامت تک گیا ہے جرمِ ہستی کا
ذرا سی بات تھی لیکن کہاں تک بات پہنچی ہے

Sunday, February 16, 2014

سحر پھونکتی ہوئی اُس کی ساحر آنکھیں

سحر پھونکتی ہوئی اُس کی ساحر آنکھیں
جادو کر کے کہاں گئیں وہ جادوگر آنکھیں


دو موسم اِک پل میں کیسے آ سکتے ہیں
وہ شاداب چہرہ، میری پت جھڑ آنکھیں

دل سینے میں ہے، لاج بچا لیتا ہے
عشق کو رُسوا کرتی ہیں، اکثر آنکھیں

بے فصل سے موسم تن بدن پہ ٹھہر گئے
خواب کہاں اُگیں، سیم زدہ بنجر آنکھیں

کون سہے گا عذاب ہجر کا پوچھا تھا
رونے والے نے کہا تھا ہنس کر، آنکھیں

کانچ جذبے، موم دل، محبت والوں کے
آگ سی باتیں اہلِ جہاں کی، پتھر آنکھیں

سحر پھونکتی ہوئی اُس کی ساحر آنکھیں
جادو کر کے کہاں گئیں وہ جادوگر آنکھیں

کب سماں تھا بہار سے پہلے

کب سماں تھا بہار سے پہلے
غم کہاں تھا بہار سے پہلے

ایک ننھا سا آرزو کا دیا
ضوفشاں تھا بہار سے پہلے

اب تماشا ہے چار تنکوں‌کا
آشیاں تھا بہار سے پہلے

اے مرے دل کے داغ یہ تو بتا
تو کہاں تھا بہار سے پہلے

پچھلی شب میں خزان کا سناٹا
ہم زباں‌تھا بہار سے پہلے

چاندنی میں‌یہ آگ کا دریا
کب رواں تھا بہار سے پہلے

بن گیا ہے سحابِ موسمِ گل
جو دھواں تھا بہار سے پہلے

لُٹ گئی دل کی زندگی ساغر
دل جواں‌تھا بہار سے پہلے

اسیرِ جسم ہوں میعادِ قید لا معلوم

اسیرِ جسم ہوں، میعادِ قید لا معلوم
یہ کس گناہ کی پاداش ہے' خدا معلوم

تری گلی بھی مجھے یوں تو کھینچتی ہے بہت
دراصل ہے مری مٹّی کہاں کی کیا معلوم

سفر ضرور ہے اور عُذر کی مجال نہیں
مزہ تو یہ ہے 'نہ منزل' نہ راستہ معلوم

دعا کروں نہ کروں سوچ ہے یہی کہ تجھے
دعا سے پہلے مرے دل کا مُدّعا معلوم


سُنی حکایتِ ہستی تو درمیاں سے سُنی
نہ ابتداؑ کی خبر ہے 'نہ انتہا معلوم

کچھ اپنے پاؤں کی ہمّت بھی چاہییے اے پیر !
یہی نہیں تو مددگاری ء عصا معلوم

طلب کریں بھی تو کیا شے طلب کریں' اے شاد !
ہمیں کو آپ نہیں اپنا مدّعا معلوم

Friday, February 14, 2014

جام ایسا تیری آنکھوں سے عطا ہو جائے

جام ایسا تیری آنکھوں سے عطا ہو جائے
ہوش موجود رہے اور نشہ ہو جائے

اس طرح میری طرف میرا مسیحا دیکھے
درد دل ہی میں رہے اور دوا ہو جائے
-♥-

تمہاری دید کو ترستی رہ گئیں میری آنکھیں

تمہاری دید کو ترستی رہ گئیں میری آنکھیں
شب ہجراں نہ چین آیا ، نہ نیند آئی ، نہ تم آئے

-♥-

میں تو یک مُشت اُسے سونپ دوں سب کچھ لیکن

میں تو یک مُشت اُسے سونپ دوں سب کچھ لیکن
اِک مٹھی میں میرے خواب کہاں آتے ہیں
-♥-
  مدتوں بعد اُسے دیکھ کر دل بھر آیا
ورنہ صحراؤں میں سیلاب کہاں آتے ہیں

Thursday, February 13, 2014

تم تم تم اور صرف تم

تم ، تم ، تم اور صرف تم
لو ختم ہوئی یہ داستان دل
-♥-

کبھی تمنا کے راستوں پر نکل پڑو


Wednesday, February 12, 2014

میں تنہائی کو تنہائی میں تنہا کیسے چھوڑ دوں

میں تنہائی کو تنہائی میں تنہا کیسے چھوڑ دوں
تنہائی نے تنہائی میں تنہا میرا ساتھ دیا ہے

یہ بھی اک تماشا ہے عشق و محبّت میں

یہ بھی اک تماشا ہے عشق و محبّت میں
دل کسی کا ہوتا ہے اور بس کسی کا چلتا ہے

Monday, February 10, 2014

آرزو کر نہ سکی ترکِ تعلق کو قبول

آرزو کر نہ سکی ترکِ تعلق کو قبول
تجھ سے بچھڑے تو تری یاد کے ہو بیٹھے

Friday, February 7, 2014

ابھی ابھی وہ ملا تھا ہزار باتیں کیں

ابھی ابھی وہ ملا تھا ہزار باتیں کیں
ابھی ابھی وہ گیا ہے مگر زمانہ ہوا
-♥-

Thursday, February 6, 2014

چلو عشق نہیں چاہنے کی عادت ہے

چلو عشق نہیں چاہنے کی عادت ہے
کیا کریں کہ ہمیں دوسروں کی عادت ہے

تو اپنی شیشہ گری کا نہ کر ہنر ضائع
میں آئینہ ہوں مجھے ٹوٹنے کی عادت ہے

وصال میں بھی وہی فاصلے سراب کے ہیں
کہ اسکو نیند مجھ کو رتجگے کی عادت ہے

تیرا نصیب ہے اے دل صدا کی محرومی
نہ وہ سخی نہ تجھے مانگنے کی عادت ہے

یہ خود اذیتی کب تک فراز تو بھی اسے
نہ کر یاد کہ جسے بھولنے کی عادت ہے

Wednesday, February 5, 2014

ﮐﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﮨﻮ ﺟﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﻭﺣﺸﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﮨﻮ

ﺩﯾﺎﺭ ﻧﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮﺍ ﺷﺒﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﮨﻮ۔۔
ﮐﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﮨﻮ ﺟﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﻭﺣﺸﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﮨﻮ

ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺟﮭﻮﭦ ﺑﮭﯽ ﺑﻮﻟﻮﮞ ﺗﻮ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺳﭻ ﺑﻮﻟﮯ
ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺰﺍﺝ ﮐﮯ ﺳﺐ ﻣﻮﺳﻤﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﮨﻮ

ﻭﮦ ﻣﯿﺮﮮ ﻧﺎﻡ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺳﮯ ﻣﻌﺘﺒﺮ ﭨﮭﺮﮮ
ﮔﻠﯽ ﮔﻠﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﺭﺳﻮﺍﺋﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﮨﻮ

ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻧﮧ ﺁﻭﮞ‘ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﺍ ﮨﻮ ﮐﮯ ﺭﮨﮯ
ﻣﯿﮟ ﮔﺮ ﭘﮍﻭﮞ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﭘﺴﺘﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﮨﻮ

ﻭﮦ ﺧﻮﺍﺏ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﺳﮯ
ﻣﯿﺮﮮ ﺧﯿﺎﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺐ ﻣﻨﻈﺮﻭﮞ ﮐﺎ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﮨﻮ

ﮐﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﮨﻮ ﺟﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﻭﺣﺸﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﮨﻮ

ﻣﯿﺮﯼ ﻭﺣﺸﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﺎﺗﮭﯽ

Tuesday, February 4, 2014

یہ حدیں نہ توڑ دینا ، میرے دائرے میں رہنا

یہ حدیں نہ توڑ دینا ، میرے دائرے میں رہنا
مجھے اپنے دل میں رکھنا ، میرے حافظے میں رہنا

میرا بوجھ خود اٹھانا ، میرا کرب آپ سہنا
میرے زخم بانٹ لینا ، میرے رتجگے میں رہنا

میرے حکم خود سننا ، میری مہر خود لگانا
میرے مشورے میں ہونا ، میرے فیصلے میں رہنا

میرے منظروں میں بسنا ، میری گفتگو میں ہونا
میرے لمس میں سمانا ، میرے ذائقے میں رہنا

کبھی دھوپ کے نگر میں میرا ساتھ چھوڑ جانا
کبھی میرا عکس بن کر میرے آئینے میں رہنا

کبھی منزلوں کی صورت میری دسترس سے باہر
کبھی سنگ میل بن کر میرے راستے میں رہنا

میرے ہاتھ کی لکیریں ترا نام بن کے چمکیں
میری خواہشوں کی خوشبو ، میرے زائچے میں رہنا

چلی ہے شہر میں اب کے ہوا ترکِ تعلق کی

چلی ہے شہر میں اب کے ہوا ترکِ تعلق کی
کہیں ہم سے نہ ہو جائے خطا ترکِ تعلق کی


بناوٹ گفتگو میں ، گفتگو بھی اکھڑی اکھڑی سی
تعلق رسمی رسمی سا ، ادا ترکِ تعلق کی

ہمیں وہ صبر کے اس موڑ تک لانے کا خواہاں ہے
کہ تنگ آجائیں ہم ، مانگیں دعا ترکِ تعلق کی

بہانے ڈھونڈتا رہتا ہے وہ ترک مراسم کے
اسے ویسے بھی عادت ہے ذرا ترکِ تعلق کی

یہ بندھن ہم نے باندھا تھا سلامت ہم کو رکھنا تھا
بہت کوشش تو اس نے کی سدا ترکِ تعلق کی

وہ ملتا بھی محبت سے ہے لیکن عادتاً ساجد
کئے جاتا ہے باتیں جا بجا ترکِ تعلق کی

Tuesday, January 21, 2014

دل اداس ہے بہت کوئی پیغام ہی لکھ دو

دل اداس ہے بہت کوئی پیغام ہی لکھ دو
تم اپنا نام نہ لکھو ، گمنام ہی لکھ دو

میری قسمت میں غم تنہائی ہے لیکن
تمام عمر نہ لکھو مگر اک شام ہی لکھ دو

ضروری نہیں کہ مل جائے سکون ہر کسی کو
سر بزم نہ آؤ مگر بے نام ہی لکھ دو

یہ جانتا ہوں کہ عمر بھر بن تیرے مجھکو رہنا ہے
مگر پل دو پل، گھڑی دو گھڑی، میرے نام ہی لکھ دو

چلو ہم مان لیتے ہیں کہ سزا کے مستحق ٹہرے ہم
کوئی انعام نہ لکھو کوئی الزام ہی لکھ دو

Saturday, January 18, 2014

سنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
تو اس کے شہر میں‌کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے درد کی گاہک ہے چشمِ ناز اس کی
سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
تو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے حشر ہیں‌اس کی غزال سی آنکھیں
سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں‌کاکلیں اس کی
سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کی سیہ چشمگی قیامت ہے
سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے جب سے حمائل ہیں اس کی گردن میں
مزاج اور ہی لعل و گوہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اس کی
جو سادہ دل ہیں‌اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں

سنا ہے چشمِ تصور سے دشتِ امکاں میں
پلنگ زاویے اس کی کمر کے دیکھتے ہیں

وہ سرو قد ہے مگر بے گل مراد نہیں
کہ اس شجر پہ شگوفے ثمر کے دیکھتے ہیں

بس اک نگاہ سے لوٹا ہے قافلہ دل کا
سو رہ روان تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کے شبستاں سے متُّصل ہے بہشت
مکیں‌ اُدھر کے بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیں

کسے نصیب کہ بے پیرہن اسے دیکھے
کبھی کبھی در و دیوار گھر کے دیکھتے ہیں

رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں
چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں

کہانیاں ہی سہی ، سب مبالغے ہی سہی
اگر وہ خواب ہے تعبیر کر کے دیکھتے ہیں

اب اس کے شہر میں‌ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں
فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں

Tuesday, January 7, 2014

Uski Kathai Aankhon Main hain

اسکی کتھئی آنکھوں میں ہیں جنتر منتر سب
چاقو واقو، چھریاں وریاں، خنجر ونجر سب


جس دن سے تم روٹھیں، مجھ سے روٹھے روٹھے ہیں
چادر وادر، تکیہ وکیہ، بستر وستر سب

مجھ سے بچھڑ کے وہ بھی کہاں اب پہلے جیسی ھے
پھیکے پڑ گۓ کپڑے وپڑے، زیور شیور سب

آخر کس دن ڈوبوں گا میں فکریں کرتے ہیں
دریا وریا، کشتی وشتی، لنگر ونگر سب

Monday, January 6, 2014

Dil Peh Ik Tarfah Qayamat Kerna

دل پہ اِک طرفہ قیامت کرنا
مُسکراتے ہوئے رخصت کرنا
اچھی آنکھیں جو ملی ہیں اُس کو
کچھ تو لازم ہُوا وحشت کرنا

جُرم کس کا تھا سزا کِس کو مِلی
کیا گئی بات پہ حُجت کرنا
کون چاہے گا تمھیں میری طرح
اب کِسی سے نہ محبت کرنا
گھر کا دروازہ کھلا رکھا ہے
وقت مِل جائے تو زحمت کرنا

Sunday, January 5, 2014

Koi Nazam Aisi Likhon Kabhi

کوئی نظم ایسی لکھوں کبھی

تری بات بات کی روشنی
مرے حرف حرف میں بکھر سکے
ترے لمس کی یہ شگفتگی
مرے جسم و جاں میں اتر سکے
کوئی چاندنی کسی گہرے رنگ کے راز کی
مرے راستوں میں بکھر سکے

تری گفتگو سے بناؤں میں
کوئی داستاں کوئی کہکشاں
ہوں محبتوں کی تمازتیں بھی کمال طرح سے مہرباں
ترے بازوؤں کی بہار میں
کبھی جھولتے ہوئے گاؤں میں
تری جستجو کے چراغ کو سر شام دل میں جلاؤں
اسی جھلملاتی سی شام میں
لکھوں نظم جو ترا روپ ہو

کہیں سخت جاڑوں میں ایک دم جو چمک اٹھے
کوئی خوشگوار سی دھوپ ہو
جو وفا کی تال کے رقص کا
کوئی جاگتا سا عکس ہو
کوئی نظم ایسی لکھوں کبھی

کہ ہر ایک لفظ کے ہاتھ میں
ترے نام کے
ترے حرف تازہ کلام کے
کی راز ہوں
جنہیں منکشف بھی کروں اگر
تو جہان شعر کے باب میں
مرے دل میں رکھی کتاب میں
ترے چشم و لب بھی چمک اٹھیں
مجھے روشنی کی فضاؤں میں کہیں گھیر لیں

کوئی نظم ایسی لکھوں کبھی ...... !!

Saturday, January 4, 2014

Yeh Jo Sargshtah sey Phirtey hain

یہ جو سرگشتہ سے پھرتے ہیں کتابوں والے
اِن سے مت مِل کہ انہیں روگ ہیں خوابوں والے

اب مہ و سال کی مہلت نہیں ملنے والی
آچکے اب تو شب و روز عذابوں والے

اب تو سب دشنہ و خنجر کی زباں بولتے ہیں
اب کہاں لوگ محبّت کے نصابوں والے

جو دلوں پر ہی کبھی نقب زنی کرتے تھے
اب گھروں تک چلے آئے وہ نقابوں والے

زندہ رہنے کی تمنا ہو تو ہو جاتے ہیں
فاختاؤں کے بھی کردار عقابوں والے

نہ مرے زخم کھُلے ہیں نہ ترا رنگِ حنا
اب کے موسم ہی نہیں آئے گلابوں والے

یوں تو لگتا ہے کہ قسمت کا سکندر ہے فراز

مگر انداز ہیں سب خانہ خرابوں والے ...