Monday, July 3, 2017

میں نظر سے پی رہا ہوں یہ سماں بدل نہ جائے

میں نظر سے پی رہا ہوں یہ سماں بدل نہ جائے
نہ جھکاؤ تم نگاہیں کہیں رات ڈھل نہ جائے

مرے اشک بھی ہیں اس میں یہ شراب ابل نہ جائے
مرا جام چھونے والے ترا ہاتھ جل نہ جائے

ابھی رات کچھ ہے باقی نہ اٹھا نقاب ساقی
ترا رند گرتے گرتے کہیں پھر سنبھل نہ جائے

مری زندگی کے مالک مرے دل پہ ہاتھ رکھنا
ترے آنے کی خوشی میں مرا دم نکل نہ جائے

مجھے پھونکنے سے پہلے مرا دل نکال لینا
یہ کسی کی ہے امانت مرے ساتھ جل نہ جائے

انور مرزاپوری