Saturday, July 1, 2017

تہمتِ چند اپنے ذمّے دھر چلے

تہمتِ چند اپنے ذمّے دھر چلے
کس لئے آئے تھے ہم کیا کر چلے

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

کیا ہمیں کام ان گلوں سے اے صبا
ایک دم آئے اِدھر اُدھر چلے

دوستو دیکھا تماشا یاں کا بس
تم رہو اب ہم تو اپنے گھر چلے

شمع کے مانند ہم اس بزم میں
چشمِ تر آئے تھے دامن تر چلے

آہ بس جی مت جلا تب جانیے
جب کوئی افسوں ترا اس پر چلے

ایک میں دل ‌ریش ہوں ویسا ہی دوست
زخم کتنوں کے سنا ہے بھر چلے

ہم جہاں میں آئے تھے تنہا ولے
ساتھ اپنے اب اسے لے‌کر چلے

ڈھونڈتے ہیں آپ سے اُس کو پرے
شیخ صاحب چھوڑ گھر باہر چلے

ہم نہ جانے پائے باہر آپ سے
وہ ہی آڑے آ گیا جیدھر چلے

جوں شرارِ ہستئ بے بود یاں
بارے ہم بھی اپنی باری بھر چلے

ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ
جب تلک بس چل سکے ساغر چلے

درد کچھ معلوم ہے یہ لوگ سب
کس طرف سے آئے تھے کیدھر چلے

میردرد