Thursday, December 1, 2016

شکستہ دل تھے ترا اعتبار کیا کرتے

شکستہ دل تھے ترا اعتبار کیا کرتے
جو اعتبار بھی کرتے تو پیار کیا کرتے
ذرا سی دیر کو بیٹھے تھے پھر اٹھا نہ گیا
شجر ہی ایسا تھا وہ سایہ دار، کیا کرتے
شب انتظار میں، دن یاد- یار میں کاٹے
اب اور عزت- لیل و نہار کیا کرتے

کبھی قدم سفر- شوق میں رکے ہی نہیں
تو سنگ میل بھلا ہم شمار کیا کرتے

ستم شناس- محبت تو جاں پہ کھیل گئے
نشان- ستم- روزگار کیا کرتے

ہماری آنکھ میں آنسو نہ اس کے لب پہ ہنسی
خیال خاطر- ابر- بہار کیا کرتے

وہ ناپسند تھا لیکن اسے بھلایا نہیں
جو بات بس میں نہ تھی اختیار کیا کرتے

درون خانہء دل کیسا شور ہے ساجد
ہمیں خبر تھی مگر آشکار کیا کرتے


(ساجد امجد)